آپ کا خاوند ، آپ کے گھر کی چھت!!! — ابو بکر قدوسی

کبھی سوچا تو ہو گا کہ روٹھتا ہے ، الجھتا ہے ، جھگڑتا ہے لیکن ایسا کیا ہے کہ ہمیشہ لوٹ کے آ جاتا ہے – بہت مضبوط دکھائی دیتا ہے ، اک دیوار کی مانند گھر کے گھر کو حصار باندھے سنبھالے رکھتا ہے ، لیکن ایسا کمزور سا ہوتا ہے کہ سوہنی کا اپنا کچا گھڑا بھی کیا کمزور ہو گا ، ایک دم سے ڈھے جاتا ہے – کبھی سوچیے تو سہی کہ کس ناز سے کہا گیا کہ :

وہ کہیں بھی گیا، لَوٹا تو مرے پاس آیا.
بس یہی بات اچھی مرے ہرجائی کی.

جانتے ہیں یہ ناز سے کہا گیا جملہ مرد کی اس کمزوری کا جیتا جاگتا نشان ہے کہ وہ ہمیشہ ہار جاتا ہے –

میں روز وہاں سے گزرتا ہوں ، بہت بار انکھوں میں پانی اترنے لگتا ہے لیکن اشارے کی بتی سبز ہو جاتی ہے – ایک چوراہے پر رات کو وہ فٹ پاتھ پر بیٹھی ہوتی ہے – ساتھ میں اس کے دو بیٹے ہوتے ہیں ، جو سات آٹھ برس کے رہے ہوں گے – ایک دم بہت پیارے بچے ہیں ، ایسے کہ دیکھتے ہی ان پر پیار آ جائے – میں کوئی ایسا پارسا نہیں کہ راہ چلتی عورت کو دیکھ کے اندھا ہو جاتا ہوں ، لیکن ایسا بھی نہیں کہ گھر چھوڑنے چلا جاؤں – لیکن اس خاتون کو میں نے بہت بار غور سے دیکھا ، بہت اہتمام سے نقاب کیا ہوتا ہے ، انکھیاں بھی بہت حد تک چھپی ہوئی سو ایسی راکھ کو کیا کریدا جا سکتا ہے اور کیا ڈھونڈا جا سکتا ہے ؟؟ –

پھر میں اس کے بہت معصوم سے بچوں کو دیکھتا ہوں اور تب تک دیکھتا ہوں جب تک ٹریفک کی بتی سبز نہیں ہو جاتی –

پیارے بچے کپڑے کا رومال لیے قطار اندر قطار گاڑیوں کے آگے پیچھے بھاگتے ہیں . اشارہ کھلنے سے پہلے ان کو کچھ بیچنا ہوتا ہے ، بہت سے لوگ ان کو پیسے دے کے آگے بڑھ جاتے ہیں – ایک روز کسی نے پولیسٹر کیا نیا لحاف پکڑا دیا . ایسا خوش کہ ہفت اقلیم کی دولت مل گئی -اس ایک آدھ منٹ میں میں مجھے یہی خیال آ رہا ہوتا ہے کہ اس گھر کی دیوار کیا ہوئی ، حصار کہاں گیا ، ان بچوں کا باپ کیا ہوا …کہ یہ سڑک پر آ گئے –

معلوم ہے کہ بچے باپ کے بنا "رل” جاتے ہیں ، عورت کا اپنا سائبان دور ہواؤں میں بکھر جاتا ہے – زمانے کی تیز آندھیاں اس کے دامن کو ریگ گذار بنا چھوڑتی ہیں –

اسی سڑک پر فیملی کورٹ ہے کبھی صبح کے وقت یہاں سے گزریئے – بہت سی مائیں اپنے بوڑھے باپوں کو ساتھ لیے اپنے طلاق کے مقدماٹکی تاریخ پر چلی آ رہی ہوتی ہیں – ساتھ میں بچے اس لیے کہ عدالت میں ان کے باپ منتظر ہوتے ہیں – کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ بچہ باپ کے پاس اور ماں کے آنسو جگر کو چھلنی کر رہے ہوتے ہیں –

برا ہو اہل مغرب کی تھذیب کا کہ اس کے اثرات نے ہمارے اس سادہ سادہ سے اور آسان سے معاشرے کو برباد کر دیا ، گھرانے اور گھروندے ٹوٹ ، بکھر رہے ہیں – اس کا بنیادی سبب یہی نا قدر شناسی ہے اک دوسرے سے حقوق ، عزت سے اعراض ہے اور اپنے "زور بازو ” پر ضرورت سے زیادہ مان ہے – اس جملے اور سوچ نے برباد کر کے رکھ دیا کہ ” میں عورت ہوں لیکن کسی سے کیا کم ہوں "-

خاوند ، محض بچوں کا باپ نہیں ہوتا ، نہ عورت کا شوہر ، اک حصار ہوتا ہے – جب رخصت ہوتا ہے تو سب کچھ بکھر جاتا ہے – چھت کے بنا کسی گھر کا تصور کیجئے ، دیواریں کاٹ کھانے کو دوڑیں گی –

بہت شکوے ہوتے ہیں ، شکایت ہوتی ہیں ، بہت لاپرواہ ایسے کہ کبھی بہتے آنسوں کو بھی بھول جائیں اور کبھی معمولی سے دکھ پر خود بھی رو اٹھیں – لیکن ہمیشہ لوٹ کے بھی آتے ہیں اور چھت بھی بنے رہتے ہیں –

چھت کی کہی کچھ ایسی غلط تو نہ کہی – اچھا ذرا تصور کیجئے نا – ایک گھر ہے اچھا سا دروازہ ، مکمل تیار دیواریں ، لیکن ان پر چھت نہیں ، ہے نا ایک دم ویرانی کا تصور –

بھلے کوئی اس چھت کی جانچ نہ کر پائے ، لیکن مصائب کی بارش ہو یا وقت کی تیز دھوپ ان کو روکتی ضرور ہے – بہت اچھا نہیں ہوتا ، بے حس ، لاپرواہ ، دکھ کو نہ جاننے والا ، کبھی کبھی کٹھور دل ….. لیکن پلٹتا ہے تو ہمیشہ سائبان بن جاتا ہے –

بہت کم حوصلہ ہوتا ہے ، لیکن ایسا حوصلے والا کہ کبھی کبھی آپ کی حد سے بڑھی ہوئی تلخ نوائی کو یوں ہنس کے سہہ جاتا ہے کہ بعد میں خود بھی حیران سا رہتا ہے –

اچھا ! ظرف کا ممکن ہے کم ہو ، لیکن ایسا مضبوط "ظرف ” ہوتا ہے کہ آپ توڑ کے خود بھی ٹوٹ جائیں – اور جانتے ہیں ؟

قیمتی اور مضبوط برتن جب ٹوٹتے ہیں تو جڑتے ہی نہیں – سو ان کو گنوایا نہ کیجئے ، ان کی قدر کیا کیجئے

Comments are closed.