آر یا پار—عمر یوسف

سیاست میں استحکام نہ آنے کا دکھ تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ زیادہ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ وطن عزیز کے قیام کو ستر سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن سیاسی استحکام میں ترقی کی بجائے تنزلی کا رجحان تیز سے تیز ہوتا جارہا ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وطن عزیز دیگر بہت سے ممالک کی نسبت وسائل کی بہتات کے باوجود وہ مقام حاصل نہیں کرپایا جس کا یہ مستحق تھا جبکہ دیگر کم وسائل کے حامل ممالک آج کسی نہ کسی مقام پر کھڑے ہیں ۔

یہاں بہت سے دانشور متعدد وجویات کی تفصیلی گفتگو کرسکتے ہیں لیکن یہ گفتگو ظاہری نوعیت کی ہوگی ۔ جبکہ ان ظواہر کے پیچھے بھی اسباب کار فرما ہیں جو ان ظواہر کے وقوع کا سبب بنے ہیں ۔

ان خفیہ اور پوشیدہ اسباب کو ایک منطقی اور فلسفی سوچ و فکر کا حامل شخص مابعد الطبیعیات کی بنیاد پر ہی پہچان سکتا ہے ۔ کہ وہ اسباب خدائی اصولوں پر مبنی ہیں ۔

ابتدائے آفرینش سے ہی خدائے بزرگ و برتر نے اس چیز کا فیصلہ فرما دیا کہ دو گروہ ہونگے جن میں سے ایک کو خدائی اور دوسرے کو غیر خدائی گروہ سے منقسم کیا جاسکتا ہے ۔ ان دونوں کے بارے اصول و ضوابط طے کردیے گئے ہیں کہ کامیابی و کامرانی یا حصول سہولت و آسائش کا معیار کیا ہوگا ۔

خدا نے غیر خدائی گروہ کو دنیوی زیب و زیبائش اور آسانیوں سے نواز کر یہ فیصلہ کیا کہ یہ اپنی سرکشی میں بڑھتے رہیں اور مہلت کا وقت گزارتے رہیں لیکن اگر اسی حالت میں روح قفس عنصری کے سپرد کرتے ہیں تو ان کا انجام بھیانک و خوفناک ہوگا ۔

اس کے برعکس خدائی گروہ کو خدا کی فوج میں مجبور کرکے شامل نہیں کیا جاتا ۔ جو شامل ہوتا ہے اپنی مرضی سے ہوتا ہے لیکن اس گروہ میں شامل ہونے کے بعد اس اصول و ضوابط کا کاربند ہونا پڑے گا اگر ایسا نہیں ہوتا تو نتیجہ ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ نئی نکلتا اور وائے ناکامی کی صدائیں لگاتا انسان ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے ۔

یہاں ایک ہی صورت کامیابی ہے اور وہ خدا کی مرضی کے مطابق چلنے میں ہے ۔

اس حقیقت کو تاریخ کے حادثات سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے ۔

وطن عزیز کو بھی اس معیار پر حاصل کیا گیا کہ یہ ایک خدائی مملکت ہوگی جس میں نظام حیات خدائی اصولوں پر مبنی ہوگا اور نظام سیاست شرعی اصولوں کے کاربند ہوگا ۔

خدائی گروہ میں شمولیت کے دعوی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خدائی اصول اپنائے جائیں لیکن اس کے برعکس نظام حیات و سیاست کی بنیاد غیر اسلامی قوانین پر استوار ہوئی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔

انسان بحیثیت مجموعی و انفرادی یہ کرسکتا ہے کہ یا تو وہ کامیابیوں کے حصول کے لیے خدائی اصولوں کا کاربند ہوکر آر ہوجائے یا پھر ان سے پہلو تہی کرتے ہوئے پار ہوجائے اور آخرت کو برباد کرلے ۔

Comments are closed.