فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی
اٹارنی جنرل سمیت دیگر وکلاء روسٹرم پر آگئے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ دیکھ لیں، کیا ابصار عالم یہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ راستے میں ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابصار عالم نے وزارت دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزامات لگائے ہیں،اب بھی آپ نظرثانی درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ آپ سے متعلق ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب قائم ہوئی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پورے ملک کو ایک جماعت نے یرغمال بنائے رکھا، حکومت میں تحقیقات کرنے کی قابلیت ہی نہیں ہے،آپ سمیت سب کہہ رہے ہیں فیض آباد دھرنا فیصلہ ٹھیک ہے، حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، ہم جاننا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا،اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں کہا کہ وفاقی حکومت فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل درآمد کرنا چاہتی ہے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل اسی سلسلے کی کڑی ہے ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہآپ نے ٹی او آرز اتنے وسیع کر دئے کہ ہر کوئی بری ہو جائے گا،اربوں روپے کا نقصان ہوا مگر سرکار کو کوئی پرواہ نہیں ،ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ کون سے مخصوص واقعہ کی انکوائری کرنی ہے،ہمارا کام حکم کرنا ہے آپ کا کام اس پر عمل کرانا ہے.جب قانون ہاتھ میں لینے والوں کو سزا ملے گی تب لوگ سبق لیں گے،حکومت سیدھا سیدھا کہہ دے کہ ہم کام نہیں کریں گے،اربوں روپے کا نقصان ہوا لیکن سرکار کو کوئی پرواہ نہیں ،6 فروری 2019 سے آج تک فیض آباد کیس کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا، اس طرح تو یہاں ہر کوئی کہے گا کہ میں جو بھی کروں مجھے کوئی پوچھ نہیں سکتا، جس طرح نظرثانی درخواستیں واپس لی جارہی ہیں لگتا ہے کوئی ادارہ آزاد نہیں،کیا کینیڈا سے آنے والے نے ٹکٹ خود خریدی تھی؟ پاکستان کا اتنا ہی درد ہے تو یہاں آ کر کیوں نہیں رہتے؟ کیا ہماری حکومت نےکینیڈا کی حکومت سے رابطہ کیا ہے؟ کیا ہم کینیڈا میں جا کر انکے پورے ملک کو ڈسٹرب کرسکتے ہیں؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی فیصلے کے بعد ملک آئین پر چل رہا ہے؟کیا آپ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ آج ملک آئین کے مطابق چل رہا ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ عدالتی فیصلے پر آج تک عمل کیوں نہیں کیا گیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے،
عدالت نے پیمرا کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا پیمرا کے سابق چیئرمین کا بیان حلفی پڑھا ہے؟ پیمرا وکیل نے کہا کہ ابصار عالم کا بیان حلفی مجھے ابھی ملا ہے، عدالت نے سینئر وکیل حافظ ایس اے رحمان پر اظہار برہمی کیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو بیان حلفی گھر جا کر دیتے؟ عدالت نے ڈی جی آپریشنز پیمرا کو روسٹرم پر بلا لیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ نے کالا کوٹ کیوں پہنا ہوا ہے؟ کیا آپ وکیل ہیں؟ ڈی جی آپریشنز نے جواب دیا کہ کالا رنگ روٹین میں پہنا ہے،
سپریم کورٹ نے چیئرمین پیمرا کو فوری طلب کر لیا ، چیرمین پیمرا کو ابصار عالم کے بیان حلفی کے حوالے سے طلب کیا گیا کیس کی مزید سماعت ساڑھے گیارہ بجے ہوگی.
فیض آباد دھرنا کیس کی وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی،چئیرمن پیمرا سلیم بیگ روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سابق چیئرمین ابصار عالم نے ایک بیان حلفی دیا ہے،ہمیں تعجب ہوا،آپ کے وکیل نے کہا کہ وہ بیان حلفی پڑھا ہی نہیں ،چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے عدالت میں کہا کہ ابصار عالم نے جو کہا وہ انہی کے ساتھ ہوا ہو گا،جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ آپ کے ساتھ یہ کبھی نہیں ہوا، چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے کہا کہ میرے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا،ابصار عالم نے جو کچھ کہا مجھے ان حقائق کا علم نہیں، ریکارڈ چیک ہوسکتا ہے مگر جو ابصار عالم کے ساتھ ذاتی طور پر ہوا اس کا علم نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار رائے میں کسی کو مارنا، تنگ کرنا نہیں آتا، کوئی ٹی وی چینل لوگوں کو فساد کیلئے اکسائے تو یہ آزادی اظہار نہیں، ایسا نہ ہو کہ ٹی وی چینل کا گلا گھونٹ دیں مگر قانون پر عمل ہونا چاہئے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیئرمین پیمرا سے سوال کیا کہ آپ کو اس فیصلے میں کچھ ہدایات دی گئی تھیں، کیا اُن پر عمل کیا یا آپ انتظار میں بیٹھے ہیں کہ اوپر سے احکامات آئیں گے تو عمل کرینگے،عدالت نے چیئرمین پیمرا سے تنخواہ کا استفسار کیا جس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ میری تنخواہ ساڑھے 4 لاکھ روپے ہے جو حکومت دیتی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو تنخواہ حکومت نہیں،عوام دیتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسینے کہا کہ سلیم بیگ آپ کا نام فیض آباد دھرنا کیس میں شامل ہے،آپ نے غلط بیانی کیوں کی کہ آپ کی تعیناتی بعد میں ہوئی،کیا آپ کو فیصلہ پسند نہیں تھا،آپ فیصلے پر عمل نہیں کرتے تو توہین عدالت بھی ہو سکتی ہے،چیئرمین پیمرا کی مدت ملازمت کتنی ہے،چیئرمین پیمرا نے کہا کہ 4 سال کی مدت ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ پھر آپ کیسے اب تک بیٹھے ہیں،چیئرمین پیمرا نے کہا کہ دوبارہ تعیناتی کی گئی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اِس وقت آپ کی عمر کیا ہے ؟،چیئرمین پیمرا نے کہا کہ اِس وقت میری عمر 63 سال ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ اِس وقت کیا ہوتا ہے؟،ہم آج تک کی عمر پوچھ رہے ہیں، کل کتنی عمر ہوگی وہ نہیں پوچھ رہے، ہر چیز کو مذاق بنایا ہوا ہے،سکول میں کوئی ایسا جواب دے تو استاد کونے میں کھڑا کر دے گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیئرمین پیمرا سلیم بیگ سے سوال کیا کہ ابصار عالم نے تو نام لے لئے،آپ میں تو اتنی ہمت نہیں کہ نام لیں،چیئرمین جواب نہ دے سکے۔
چیف جسٹس کی برہمی پر وکیل پیمرا نے وکلالت نامہ واپس لے لیا،وکیل پیمرا ایس اے رحمان روسٹرم سے ہٹ گئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو درمیان میں زیادہ بولنا ہے تو اپنا کنڈکٹ دیکھ لیں،آپ کا کام ہے اپنے موکل کو بتانا کہ فیصلے پر عمل کریں،آپ نے یہ نہیں کرنا تو الگ ہو جائیں،جسٹس اطہر من اللہ نے ایس اے رحمان کو دوبارہ مخاطب کرنے کی کوشش کی جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بالکل جانے دیں انہیں ،یہ ان کا کنڈکٹ ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ زرا سا ہم نے آپ کو دبایا آپ نے کہا ہم عملدرآمد کرینگے،سب نے دائر کی تو آپ نے سوچا ہم بھی کر دیتے ہیں،ہم آپ کو مضبوط کر رہے ہیں،ہم کہہ رہے ہیں بتائیں آپ کے امور میں کون مداخلت کر رہا ہے،چیئرمین پیمرا نے کہا کہ ہماری غلطی تھی نظرثانی درخواست دائر کی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نظرثانی درخواست پر دستخط صرف چیئرمین پیمرا کے ہیں،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظرثانی دائر کرنے کا فیصلہ چیئرمین کا اپنا تھا، چیئرمین صاحب آپ سے تین حکومتیں بہت خوش تھیں، کس سے ڈرتے ہیں؟ میری اور آپ کی عمر میں کچھ معلوم نہیں موت کب آ جائے،چیئرمین پیمرا نے کہا کہ اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا،
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ابصار عالم نے پریس کانفرنس کی اور وزیراعظم کو خط لکھ کر بھی حقائق بتائے، حیرت ہے اس وقت کے وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف نے کچھ نہیں کیا، ابصار عالم نے خط وزیراعظم نوازشریف کو لکھا تھا، کرسی سے اترنے کے بعد ہر وزیراعظم کہتا ہے میں مجبور تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سلیم بیگ اللہ آپ کو لمبی زندگی دے،مگر جانا ہم نے وہیں ہے،آپ ہمت پکڑیں بتادیں نظرثانی میں جانے کا کس نے کہا تھا،پیمرا میں منظوری ہوئی تو وہ کہاں ہے،چیئرمین پیمرا نے کہا کہ منظوری تحریری نہیں زبانی تھی،چیف جسٹس نے کہا کہ زبانی فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے،چیف جسٹس نے ڈائریکٹر لا پیمرا کو بلا لیا اور کہا کہ یہ تو سچ نہیں بول رہے آپ ہی بتا دیں ،نظرثانی کا کس نے کہا تھا، ڈائریکٹر لا پیمرا نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون پڑھیں کیا پیمرا میں زبانی فیصلہ ہو سکتا،ہم آپ کو آج آپ کا قانون پڑھائیں گے،پہلے آپ پر کوئی دبائو نہیں تھا لیکن اب قانون کا دبائو ہوگا، آرڈر لکھوانے سے پہلے پھر پوچھ رہے ہیں کس نے حکم دیا تھا،عدالتیں اس لئے نہیں ہوتیں کہ ان کیساتھ کھیل کھیلا جائے،
ابصار عالم نے عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ جب چیئرمین پیمرا تھا مجھے اُس وقت سٹاف کے ذریعے دھمکی آمیز کال کرائی گئی،کال ریکاڈ بھی ہوئی، وہ کال میں نے نواز شریف اور جنرل باجوہ کو بھی بھیجی،جو کال مجھے کی گئی اُس کا کوئی نمبر نہیں تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے وزیراعظم کو 8 مئی 2017 کو خط لکھا کہ میڈیا سے کچھ عناصر دھمکیاں دے رہے ہیں،میڈیا کے اندر کے عناصر کا وزیراعظم کیا کریں؟ ایسا ہی خط چیف جسٹس اور آرمی چیف کو بھی لکھا گیا تھا، ابصار عالم نے کہا کہ خط میں درخواست کی تھی کہ حساس اداروں سے تفتیش کرائیں تاکہ ایسے عناصر اور سپورٹرز کیخلاف کارروائی ہو، کیبل آپریٹرز کے پاس حساس اداروں کے لوگ جاتے تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ خط میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم نے آپ کو خط کو جواب دیا؟ابصار عالم نے کہا کہ وزیراعظم نے کوئی جواب نہیں دیا.جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ میں اتنی ہمت تھی کہ عہدے پر رہتے ہوئے آواز اٹھائی کہ سسٹم کیسے چلتا ہے، ابصار عالم نے کہا کہ سابق میجر جنرل فیض حمید اور انکے عملے نے نجم سیٹھی کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا،نجم سیٹھی نے جیو پر پروگرام کیا تھا، میں نے پروگرام بند کرنے سے انکار کر دیا،جنرل فیض نے حسین حقانی کے میڈیا بلیک آئوٹ کا بھی کہا جو میں نہیں مانا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو ہٹانے کی یہی وجہ تھی؟ ابصار عالم نے کہا کہ میں ان کی جیب میں نہیں تھا اس لئے مجھے ہٹایا گیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ کے بعد والے چیئرمین پیمرا کہتے ہیں ان پر کوئی دبائو نہیں تھا،ابصار عالم نے کہا کہ میرے بعد آنے والے چیئرمین پیمر ا خوش قسمت ہیں، میرے دور میں 2 چینلز جن کو نمبروں سے ہٹایا گیا ، عدالتی حکم پر بحال کیا، میرے بعد کیا ہو ااس کے بارے میں علم نہیں،جو ریکارڈڈ کال آرمی چیف اور وزیر اعظم کو بھیجی ، بندے کی نشاندہی نہیں کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کیخلاف جو مقدمات ہوئے انکی تفصیل ہمیں دے دیں،آپ صفائی نہ دیں ہم نے پیمرا کو کہا تھا کہ عدالت کے حکم پر عمل کیا جائے، ابصار عالم نے کہا کہ جنرل فیض اور انکے عملے نے تین بار کال کرکے کہا 92 نیوز کو کھولو یا سب کو بند کر دو،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کسی کی پیٹھ پیچھے بیان نہیں ہوتا، اگر حکومت کمیشن بنائے تو آپ وہاں پیش ہونگے؟ ابصار عالم نے کہا کہ کلمہ پڑھ کر کہ رہا ہوں پیش ہوکر بیان دوں گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جن پر الزام ہے ان کا بھی موقف لیا جائے گا اور شاید جرح بھی ہو،ابصار عالم نے کہا کہ جرح اور بیان دینے کیلئے تیار ہوں،
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی نے چیئرمین پیمرا کے خطوط کا جواب نہیں دیا جو سنگین معاملہ ہے، ابصار عالم نے کہا کہ میرے خلاف تین درخواستیں دائر ہوئیں اور ایک منظور ہوگئی،فیض آباد دھرنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ سے میری تعیناتی غیرقانونی قرار دی گئی،سپریم کورٹ سے میری اپیل وکیل کے پیش نہ ہونے کی وجہ سے خارج ہوئی، اُس وقت مجھے انصاف کی امید نہیں تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ امید ختم نہ کریں، آخری وقت تک لڑتے رہیں، اپیل بحالی کی درخواست دی جا سکتی ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابصار عالم کے الزامات ہی کافی تھے کہ انکوائری کرائی جاتی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا درخواستوں پر جو فیصلے آئے ہیں وہ جواب کا حصہ ہیں؟ ابصار عالم نے کہا کہ نہیں وہ فیصلے اس جواب کا حصہ نہیں ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کیا کارروائی ہوئی؟ان فیصلوں پر بات نہ کریں، جب تک دستاویز نہیں لگاتے، ابصار عالم نے کہا کہ عدالتی حکم پر سچ سامنے لایا ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ابصار عالم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت پر کچھ نہ ڈالیں آپ آرام سےگھر بیٹھیں ،جو باتیں آپ کہہ رہے ہیں اس کا ریکارڈ بھی دیں،آپ کہہ رہے اگر بلایا ہوتا تو پیش ہوتا اس سے تو عدالت بری بن رہی ہے،ہم نے آپکو نہیں بلایا آپ خود آئے ہیں،آپ جو دستاویز فائل کرینگے تو اس کو دیکھ کر کارروائی کریں گے جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ کے الزامات بہت سنجیدہ ہیں،جب آپ چیئرمین پیمرا تھے تب بھی یہ سب باتیں کرنی چاہیے تھیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کیخلاف درخواست گزار کون تھا؟ ابصار عالم نے کہا کہ منیر احمد نامی شخص کے حوالے سے سنا کہ وہ ایجنسیوں کا بندہ ہے، اس کے بعد مزید کسی تحقیق کی گنجائش نہیں تھی، چینل 92 نیوز بند کرنے پر جنرل فیض نے مجھے فون کیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ وہ کیوں چاہتے تھے کہ 92 نیوز بند نہ ہو؟ ابصار عالم نے کہا کہ چینل 92 نیوز پرتشدد اور نفرت انگیز مواد نشر کر رہا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں فوج کا افسر چاہتا تھا کہ پرتشدد کارروائی ہو؟ ابصار عالم نے کہا کہ روتے ہوئے دل کیساتھ کہ رہا ہوں بظاہر ایسا ہی لگتا ہے،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا پیمرا نے دبائو میں آ کر نظرثانی دائر کی ہے؟ کیا اوپر سے حکم آیا یا ٹاس کرنے پر نظرثانی کا فیصلہ کیا؟ ابصار عالم نے کہا کہ مارچ 2019 میں نظرثانی دائر ہوئی، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید تھے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ گزشتہ 70 سال سے یہی ہو رہا تھا آج بھی جاری ہے،ابصار عالم نے کہا کہ تجربے کی بنیاد پر کہ رہا ہوں پیمرا کو وزارت اطلاعات یا ایجنسیوں نے نظرثانی کا کہا ہوگا،مجھے علم نہیں کہ زبانی حکم اگر کسی نے دیا تھا تو کون ہوسکتا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیئرمین پیمرا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سچ انسان کو آزاد کر دیتا ہے،ہمارے سامنے تو آپ سچ بول نہیں رہے کمیشن شاید آپ سے اگلوا لے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے کسی کا خون بھی ہوجائے تو ہم نہیں دیکھیں گے، یہ کام پولیس کا ہے وہ تفتیش کرے، یہاں ہمارے حکم میں پیمر اکو اختیارات استعمال کرنے کا کہا گیا،پیمرا حکام اختیارات استعمال کرنے سے کترا رہے اور کہتے ہیں فیصلے پر نظر ثانی کریں،کیا اپ کو لگتا ہے کہ ہمارا فیصلہ غلط تھا اس پر نظر ثانی کی جائے، کیاآپ بتا سکتے ہیں کہ بطور سینئر صحافی کیا نظر ثانی درست دائر کی گئی اور کیوں دائر کی گئی؟ ابصار عالم نے کہا کہ میرے تجربے کے مطابق یا وزارت اطلاعات ہوگی یا پھر کوئی ایجنسیاں،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ نے اس وقت تقریبا سب کچھ بتا دیا تھا کہ کیا ہورہا ہے، لیکن آپ نے ایک ہمت کی اور چیزیں ریکارڈ پر لے آئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیئرمین پیمرا صاحب آپ بتائیں کہ کیا ابصار عالم صحیح کہہ رہے ہیں؟آپ ہماری مدد نہیں کررہے ہیں، کیا اپ کمیشن میں سچ بولیں گے،سلیم بیگ آپ پرانے بیوروکریٹ ہیں کیا اپ کے خلاف درخواست دائر ہوئی ہے؟ چیف جسٹس نے ابصار عالم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جب تعینات ہوئے اس وقت کتنے امیدوار تھے؟ابصار عالم نے کہا کہ اُس وقت 100 امیدوار تھے اور مجھے ایک کمیٹی نے تعینات کیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ،ایک وقت میں سب سے بڑا فاشزم والا ملک جرمنی تھا لیکن اب وہ سب سے مہذب ملک ہے، ہمارے یہاں عجیب بات ہے کہ سچ کوئی نہیں بولے گا، بیگ صاحب کیا آپ کے ضمیر کا دروازہ کھٹکا یا نہیں، آپ یہ بتائیں نظرثانی درخواست دائر کرنا کس کا فیصلہ تھا،ابصا ر عالم نے کہا کہ پیمرا کو وزارت یا کسی ایجنسی نے نظرثانی دائر کرنے کا کہا ہوگا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سلیم بیگ صاحب بتائیں کس نے کہا تھا نظرثانی دائر کریں،آپ بھی کمیشن کے سامنے جواب دیجئے گا،سچ ہمیشہ سامنے آکر ہی رہتا ہے،چیئرمین پیمرا ہماری مدد نہیں کر رہے نا کچھ بتا نہیں رہے،دھرنے والوں نے تو نہیں کہا تھا کہ نظرثانی دائر کریں ،یا آپ نے بس چلتے پھرتے نظرثانی دائر کر دی،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ نظام کو ایکسپوز کرنا بہت بڑی بہادری ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ترقی یافتہ ملک ماضی سے سیکھتے ہیں،چیئرمین پیمرا نے کہا کہ پیمرا حکام کیساتھ ہم نے نظرثانی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ابصار عالم نے کسی کا لحاظ نہیں کیا سسٹم کو ایکسپوز کیا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ابصار عالم صاحب آپ نے سپریم کورٹ سے اپنی اپیل واپس لے لی تھی،ابصار عالم نے کہا کہ وہ اپیل میرے وکیل کی پیش نہ ہونے کی وجہ سے خارج ہوئی،اس وقت مجھے انصاف کی امید نہیں تھی،میں اللہ کے سو اکسی اور شخص کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ امید ختم نہ کریں،آخری وقت تک لڑتے رہیں،اپیل بحالی کی درخواست دی جاسکتی ہے،، آج بھی ہم نے اپیلیں بحال کی ہیں،
سپریم کورٹ نے نظرثانی درخواست واپس لینے کے معاملے پر شیخ رشید کو نوٹس جاری کر دیا ،اعجاز الحق نے عدالتی فیصلے میں حساس ادارے کی رپورٹ کی تردید کر دی،فیض آباد دھرنا کیس سماعت کے دوران اہم مکالمہ سامنے آیا ہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اعجاز الحق کے والد سابق آرمی چیف تھے، وکیل اعجاز الحق نے کہا کہ اعجاز الحق کے والد صدر پاکستان بھی تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ضیاء الحق کو سابق صدر نہیں مانتا ، عدالت میں ایسی غلط بیانی دوبارہ نہیں کرنا، وکیل اعجاز الحق نے کہا کہ ضیاء الحق کا نام آئین میں لکھا ہوا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ضیاء الحق کا نام آئین سے نکال دیا گیا تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین کے تحت صدر پانچ سال کیلئے ہی ہوسکتا ہے، بندوق کی زور پر کوئی صدر نہیں بن سکتا، سابق آرمی چیف کے بیٹے کا نام آئی ایس آئی نے غلط طور پر رپورٹ میں شامل کیا؟ وکیل اعجاز الحق نے کہا کہ اپنی پوزیشن واضح کر رہے ہیں،
تحریک لبیک کو بھی فارن فنڈنگ ہوئی، وکیل الیکشن کمیشن کا سپریم کورٹ میں اعتراف
الیکشن کمیشن کے وکیل کو عدالت نے روسڑم پر بلا لیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تو ایک آزاد ادارہ ہیں ،کیا الیکشن کمیشن نے ایک فضول نظرثانی دائر کی جو اب واپس لینی ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس وقت الیکشن کمیشن کا سربراہ کون تھا ،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سردار رضا اس وقت چیف الیکشن کمشنر تھے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ جسٹس سردار محمد رضا؟ الیکشن کمیشن نے اب عملدرآمد رپورٹ دی ہے اس میں کیا ہے؟ دکھائیں کیا عملدرآمد کیا گیا؟ آج کل وکالت کم لفاظی زیادہ ہو رہی ہے، چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن کو تحریک لبیک کے ذمہ داروں کے ساتھ حافظ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ایک آئینی ادارے میں انھیں حافظ کیوں کہہ رہے ہیں،آپ لوگوں سے مساوی سلوک نہیں کرتے،آپ نے عملدرآمد رپورٹ میں جو کچھ لکھا وہ فیصلے سے پہلے کا ہے، ہمارے فیصلے کے بعد کیا اقدامات لئے وہ بتائیں،کیا آپ نے ٹی ایل پی رجسٹر کرانے والے شخص کو بلایا؟ ٹی ایل پی رجسٹریشن کرانے والا شخص تو دوبئی میں رہتا ہے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹی ایل پی کو بلایا تھا رجسٹر کرانے والے کو نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن اس طرح کام کرتا ہے؟ راتوں رات سیاسی جماعتیں کیسے رجسٹر ہوجاتی ہیں؟کچھ لوگ کہتے ہیں پاکستان میں اوپر سے حکم آتا ہے کچھ کہتے ہیں پہیے لگ جاتے ہیں،ایک دن درخواست آتی ہے اگلے دن الیکشن کمیشن نئی جماعت رجسٹر کر لیتا ہے،جیسے ایک شخص کہتے ہیں کیا یہاں کام پہیے لگا کر ہوتے ہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا بیرون ملک رہنے والا سیاسی جماعت رجسٹر کروا سکتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ بیرون ملک رہنے والوں کے پارٹی رجسٹر کرانے والوں پر پابندی نہیں، سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کیلئے دو ہزار شناختی کارڈ قانونی طور پر لازمی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹی ایل پی والوں کے دو ہزار شناختی کارڈ کہاں ہیں؟ٹی ایل پی کی رجسٹریشن کا ریکارڈ کہاں ہے؟الیکشن ایکٹ 2017 پر عملدرآمد کا ریکارڈ کہاں ہے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹی ایل پی کی فارن فنڈنگ کی تحقیقات کی ہیں، تحریک لبیک کو 15 لاکھ کی معمولی فارن فنڈنگ ہوئی جسے فارن فنڈنگ قرار نہیں دیا جا سکتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن خود مان رہا کہ 15 لاکھ کی فارن فنڈنگ ہوئی،15 لاکھ الیکشن کمیشن کیلئے معمولی رقم ہوگی میرے لیے تو کافی رقم ہے،الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اس طرح آنکھوں میں دھول نہ جھونکے،جیسے ہمارے قانون کا بناوٹی کہا جاتا تھا الیکشن کمیشن ویسے کام کر رہا ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے فارن فنڈنگ تو ہے لیکن بہت معمولی سی؟ پندرہ لاکھ روپے پینٹس ہیں تو مینگو کیا ہے؟پینٹس PeanutS لفظ سب سے پہلے کس نے استعمال کیا تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے امریکی صدر کو 1979 میں کم امداد دینے پر کہا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کا مونگ پھلی کا فارم تھا جس وجہ سے جملہ بولا گیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن ملک کیساتھ مخلص ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ملک کیساتھ مخلص ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ باقاعدہ سسٹم کے تحت ادارے تباہ کئے جائیں تو کس کی ملک سے کیا مخلصی ہوگی،جن کی تحقیقات ہونی تھیں انکی وکالت الیکشن کمیشن کے وکیل کر رہے ہیں،
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کا شہری نہ ہونے والا کیا جماعت رجسٹرڈ کروا سکتا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ الیکشن ایکٹ 2017 کے تابع ہیں تو بتائیں اس پر عمل کیا،چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کی عملدرآمد رپورٹ مسترد کر دی اور کہا کہ یہ فائل آپ واپس لے جائیں اور بتائیں کیا آپ نے قانون پر عمل کیا،ہمارے فیصلے کو بھول جائیں اپنا قانون دیکھ کر بتائیں،کیا قانون صرف الماریوں میں رکھنے کیلئے ہے کیا اس پر عمل نہیں کرنا،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی بھی سچ بتانے کو تیار نہیں، سب کہتے ہیں اتفاقیہ تھا، کتنا حسین اتفاق ہے کہ وزارت دفاع، الیکشن کمیشن سمیت سب نے نظرثانی دائر کی،اٹارنی جنرل نے کہا کہ چار سال بعد نظرثانی درخواست مقرر ہوئی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ بھی حسن اتفاق ہے، حسن اتفاق پر کوئی شعر ہی سنا دیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ بات نکلے گی تو بہت دور تک جائے گی، اس وقت یہی شعر اچھا ہے،
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل الیکشن کمیشن پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ الیکشن کمیشن کی نہیں کسی اور کی نمائندگی کر رہے ہیں،عدالت کو بالکل کوئی معاونت فراہم نہیں کی جارہیالیکشن کمیشن کے وکیل کوئی قانونی حوالہ نہیں دے رہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ آپ نے کبھی چندہ دیا ہے،کیا آپ نے کبھی 680 روپے یا 1000 روپے دیئے ہیں،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جی بالکل میں نے چندہ دیا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی کو کیا پتا جو پیسے دیئے جارہے وہ کہاں سے آئے ہیں، الیکشن کمیشن نے پوچھا ہی نہیں تحریک لبیک کو چندہ دینے والے شیخ ریاض کون ہیں
سماعت کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا،حکمنامہ میں کہا گیا کہ سابق چیئر مین پیمرا ابصار عالم نے بیان حلفی جمع کرایا ،بیان حلفی میں ایک انفرادی شخص اور انکے نامعلوم ماتحت اہلکاروں پر سنگین الزامات عائد کئے،ہمارے ساتھ غلط بیانی کی گئی ،ایک منظم طریقے سے ملک کے ادارے تباہ کئے گئے،اٹارنی جنرل نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل بارے بتایا،اٹارنی جنرل کے مطابق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا نوٹیفکیشن تاحال جاری نہیں کیا گیا،کمیٹی نے تحقیقات کیسے کرنی ہیں اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا،اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ حکومت انکوائری کمیشن تشکیل دے گی،اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کی تشکیل سے متعلق مہلت طلب کی،اٹارنی جنرل کے مطابق کمیشن تشکیل دیکر عدالتی فیصلے پر مکمل عملدرآمد ہوگا،حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سنجیدہ نہیں لیا،آئی بی،وزارت دفاع اور پیمرا نے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی،وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے بھی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی،تحریک لبیک نے کوئی نظرثانی درخواست دائر نہیں کی،تحریک لبیک کو فیض آباد دھرنا فیصلہ درست لگا ہوگا،انفرادی درخواست گزاروں کو ہم نہیں سنیں گے،تمام متعلقہ درخواست گزاروں کو ہم نے سن لیا ہے،ابصار عالم نے کچھ شخصیات پر الزامات عائد کیے،اگر حکومت کمیشن قائم کرتی ہے تو تمام الزامات کمیشن کے سامنے رکھے جائیں،ابصار عالم نے کہا وہ انکوائری کمیشن کے سامنے سارا بیان کھل کر دیں گے،سپریم کورٹ نے وزارت دفاع اور انٹیلی جنس بیورو کی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دیں عدالت نے شیخ رشید کو نوٹسز جاری کردیئے،عدالت نے کہا کہ شیخ رشید کی درخواست خارج نہیں کی جاتی،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی،بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں ، وفاقی حکومت ، الیکشن کمیشن اور پیمرا نے عدالتی حکم پر عملدرآمد جواب جمع کروا دیا وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا کہ فیض آباد دھرنا کیس کے زمہ دار کے تعین کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی ہے ، الیکشن کمیشن نے جواب میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کا بتا دیا پیمرا نے بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام احکامات پر من و عن عمل کر چکے ہیں
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلے تو کہا تھا کہ فیصلے میں کئی غلطیاں ہیں
فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس میں التواء کی درخواست
فیض حمید جو اب سابق ڈی جی آئی ایس آئی ہیں نے ملک کو ناقابِلِ تَلافی نقصان پہنچایا
،میں ابھی فیض حمید کے صرف پاکستانی اثاثوں کی بات کر رہا ہوں
برج کھیل کب ایجاد ہوا، برج کھیلتے کیسے ہیں
کھیل سے امن کا پیغام دینے آئے ہیں.بھارتی ٹیم کے کپتان کی پریس کانفرنس
وادی طائف کی مسجد جو حضور اقدس نے خود بنائی، مسجد کے ساتھ کن اصحاب کی قبریں ہیں ؟
فیض حمید مبینہ طور پر نومئی کے حملوں میں ملوث ہیں
نجف حمید کے گھر چوری کی واردات