فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس یکم نومبر تک ملتوی

0
99
supreme court01

سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس نظر ثانی درخواستوں پر سماعت ہوئی،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان بینچ کا حصہ ہیں,چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کر رہے ہیں ، پہلے سارے درخواستگزاروں کی حاضری لگاٸیں،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ،یہ ریگولر بینچ ہے خصوصی بینچ نہیں ، نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں ، مگر یہ چار سال مقرر نہ ہوئیں ، فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہو چکے،اس لیے اس بینچ کے سامنے نہیں لگا

اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی درخواست واپس لینے کی استدعا کی جس پرچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کیوں اس پر سماعت نہیں چاہتے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ اس کو بہتر سمجھتے ہیں، ہم سادہ طریقے سے یہ درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلے تو کہا تھا کہ فیصلے میں کئی غلطیاں ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ شیچ رشید کے وکیل وزیر بن گئے ہیں،تو اپنا متبادل مقرر کر کے جائیں،ایم کیو ایم کے وکیل بھی عدالت پیش نہ ہوئے

سابق چیئرمین پیمرا بھی روسٹرم پر موجود تھے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے،اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہو گئیں،کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے،جو اتھارٹی میں رہ چکے وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریر کرتے ہیں،کہا جاتا ہے کہ ہمیں سنا نہیں گیا،اب ہم سننے کیلئے بیٹھے ہیں آکر بتائیں،ہم یہ درخواستیں زیر التوا رکھ لیتے ہیں،کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طور پر کہے،آپ طویل پروگرام کر لیں مگر ہر ادارے کو تباہ نہ کریں،یہاں آپ خاموش ہیں اور ٹی وی پر کہیں گے کہ ہمیں سنا نہیں گیا،ہم پیمرا کی درخواست زیر التو رکھیں گے کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا ,اتنے سالوں سے کیس زیر التوا رہا ہے، کوئی نہیں بولا ، جب کیس سماعت کے لئے مقرر ہوا تو باتیں سامنے آ گئیں، ہم یہاں زبانی تقاریر نہیں سن سکتے، یہ کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں،

وکیل پیمرا حافظ احسان نے عدالت میں کہا کہ میں بھی اپنی نظرثانی اپیل واپس لے رہا ہوں،پی ٹی آئی نے بھی فیض آباد دھرنا نظرثانی درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی،وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے،چیف جسٹس قاضی فائز نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ کیا آپکو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپکو اجازت دے گی۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم اس کیس میں فریق بھی نہیں بننا چاہتے۔ چیف جسٹس قاضی فائز نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ پہلے ملک کو ٹینشن میں رکھا گیا آج کہہ رہے ہیں ہم درخواست کی پیروی نہیں کریں گے،آپ پہلے غلط تھے یا آج غلط تھے

وکیل اعجاز الحق نے عدالت میں کہا کہ فیصلے میں ہمارے خلاف آبزرویشن دی گئی، ہم نے کبھی فیض آباد دھرنے کی حمایت نہیں کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے فیصلے میں آئی ایس آئی کے رپورٹ کا ذکر کیا ہے،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم یہ درخواستیں زیر التوا رکھ لیتے ہیں،کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طور پر کہے

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اب سب درخواستیں واپس لے رہے ہیں،کیوں نہ اٹارنی جنرل سمیت سب پر جرمانہ عائد کیا جائے،عدالتی وقت خراب کیا گیا،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ درخواستیں واپس کیوں لی جارہی ہیں، ہمیں بتائیں، سچ بولنے سے ہر کوئی کترا کیوں رہا ہے؟ کیا یہ کہہ رہے ہیں مٹی پاو بعد میں دیکھیں گے، 12 مئی کو 55لوگ مرے، خون ہوا، آپ کہہ رہے ہیں مٹی پاؤ۔ بتائیں نا کیوں مٹی ڈالیں؟ کیا نئے واقعے کا انتظار کریں،؟ فیض آباد دھرنا کیس میں سب نے نظرثانی درخواستیں دائر کیں جس سے امید تھی کہ نظرثانی دائر کرینگے انہوں نے دائر نہیں کی۔ آپ سب سے تو کم از کم خادم رضوی بہتر رہے، انہوں نے نظر ثانی درخواست بھی نہیں ڈالی جس کا مطلب ہے کہ ٹی ایل پی نے اپنی غلطی تسلیم کی اور ہمارے فیصلہ کو تسلیم کیا۔ خادم رضوی صاحب زندہ تھے اس وقت مگر شاید ہمارے فیصلے سے مطمئن تھے۔ غلطی ہوجاتی اسے تسلیم کرنا بڑاپن ہوتا ہے ،،نظرثانی واپس لیکر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جو ہوا مٹی پاؤ ،، 12 مئی کے واقعات پر بھی مٹی پاؤکہیں گے کیا،

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، آپ کہہ رہے ہیں حکم آیا تھا ہم نے نظر ثانی دائر کردی، آپ لکھ کر بتائیں کس نے حکم کیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کر کے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 2017 میں معاملات کیسے چلے، وہ دھرنا کیسے چلا، بتائیں ناں، کون سا ڈر آپ کو ہے، بتائیں کس کے حکم پر نظرثانی درخواست دائر کی، اللہ سے ڈریں، ایسے معاشرہ تباہ ہوجائیگا،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ فیض آباد دھرنے کے وقت جو معاہدہ ہوا تھا کیا وہ ابھی ریکارڈ پر موجود ہے، ہمارے سامنے دستاویز میں معاہدہ نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا، ریکارڈ دیکھ کر آگاہ کروں گا،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے سب سے پہلے تو معافی مانگنا ہوتی ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد تو کرنا ہوگا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر درخواست دی تو اب سامنا بھی کریں، سزا جزا بعد کی بات پہلے اعتراف جرم تو کرلیں، ہم سے یہ کھیل نہ کھیلیں، آپ میں بتانے کی ہمت ہے یا نہیں؟کیا آپ بتائینگے کہ کس کے حکم پر درخواستیں دائر کیں؟ آپکو کس سے ڈر ہے؟ اوپر والے سے تو ڈرتے نہیں، تقریریں تو بہت کرتے ہیں ہمت ہے کرکے عدالت کو بھی بتاٸیں؟ ہمارا معاشرہ آہستہ آہستہ تباہ ہوجائے گا، پاکستان کہاں سے کہاں آگیا،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سب نظرثانی درخواستیں واپس بھی ہوجائیں تو ہمارے فیصلے کا کیا ہوگا؟ کیا 2019 کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا، سب لوگ ڈرے ہوئے کیوں ہیں کوئی درست بات نہیں بتا رہا،مجھ سمیت احتساب سب کا ہونا چاہیے اور احتساب سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے، کینیڈا والے صاحب کہاں ہیں جنہیں جمہوریت چاہئے تھی؟ اپنے ملک میں اس طرح دھرنا کر کے دکھائیں، یہاں کہتے ہیں تم سبھالو میں واپس کینیڈا چلا،حدیث کے مطابق مومن کنجوس اور بزدل ہوسکتا ہے لیکن جھوٹا نہیں، حکومت یا کوئی بھی خفیہ ادارہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتا،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں ٹرائل نہیں ہوتا، دوسرے ممالک میں 80 سال کے لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا، ہم اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتے، سب کہتے ہیں آج جو ہوا، وہ گزر گیا، جو اتھارٹی میں رہ چکے وہ پی ٹی آئی اور سوشل میڈیا پر تقاریر کرتے ہیں،‏12 مئی واقعے میں پہلی بار کنٹینر انٹر ڈیوس کئے گئے، اس وقت پورٹس اینڈ شپنگ کے وزیر ایم کیو ایم کے تھے، آج ایم کیو ایم نہیں آئی، الیکشن کمیشن بھی سابقہ یا موجودہ نہیں ہوتا یہ ادارہ ہے ہر ایک کا احتساب ہونا چاہیے،

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے چیف جسٹس فائز عیسی سے فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر عملدرآمد کی استدعا کردی ,اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنادیا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس دھرنے کے بعد کئی اور ایسے ہی واقعات سامنے آئے،اگر اس وقت اس فیصلہ پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم فیصلے میں دی گئی 17 ہدایات ہر عمل سے صحیح سمت میں چلیں گے،چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ نے سورت توبہ کی آیت 19 میں سچے کوگوں کا ساتھ دینے کا کہا ،آپ لوگوں نے فیصلے کو آج سچ مان لیا اب آپ کا امتحان ہے کہ آپ ساتھ دیتے ہیں یا نہیں

عدالت نے کہا کہ شیخ رشید کے وکیل امام اللہ کنرانی کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا منظور کرتے ہیں، جو وکلاء آج پیش نہیں ہوئے آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنائیں، آج سب فریقین موجود نہیں تھے،فریقین کو حاضری کا ایک اور موقع دیا جاتا ہے،

فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس یکم نومبر تک ملتوی کر دیا گیا، عدالت نے حکم دیا کہ 27 اکتوبر تک تمام فریقین تحریری معروضات جمع کرادیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی 4 سال کے بعد سماعت ہوئی ہے آپکو مزید وقت دیتے ہیں، اسکے بعد عملدرآمد ہو گا، سماعت کو 1 نومبر تک ملتوی کرتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ آج آپ لوگوں نے فیصلے کو سچ مان لیا اب آپ کا امتحان ہے آپ سچ کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں،سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا معاہدے کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی ہدایت کردی

فیض آباد دھرنا کیس کی لائیو سماعت کیوں نہ نشر ہوئی، چیف جسٹس نے وجہ بتا دی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم لائیو اسٹریمنگ کیلئے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کو ایک پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر چلا رہے ہیں،لائیو اسٹریمنگ کے حوالے سے دو رکنی کمیٹی بنائی ہے جو اس وقت کام کرہی ہے،کمیٹی کی گزارشات کے بعد اس معاملے کو دیکھیں گے،

وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرا دی ، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 27 اکتوبر تک فریقین اگر کچھ جمع کرانا چاہیں تو کرا سکتے ہیں آئندہ سماعت یکم اکتوبر کو ہو گی چیف جسٹس نے کیس کو مفاد عامہ کا کیس قرار دیا اور کہا براہ راست دیکھانے کے حوالے سے ابھی کمیٹی بنی ہے وہ ان تمام معاملات کو دیکھ رہی ہے

اٹارنی جنرل منصور اعوان سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں، الیکشن کمیشن کے حکام، پیمرا اور تحریک انصاف کے وکلاء بھی کمرہ عدالت پہنچ چکے

انٹیلی جنس بیورو اور پیمرا کے بعد وفاق نے بھی فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ میں دائر نظرِ ثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، اس ضمن میں اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی درخواست واپس لے رہے ہیں ،

پاکستان تحریک انصاف بھی پیچھے ہٹ گئی ،بیرسٹر علی ظفر سے صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ درخواست واپس لے رہے ہیں ؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ ہم نظر ثانی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔ پی ٹی آئی نے بھی فیض آباد دھرنا فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواست دائر کی تھی

قبل ازیں ایک روز قبل سپریم کورٹ میں شیخ رشید کے وکیل نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس میں التواء کی درخواست دی،شیخ رشید کے وکیل کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کے نگران وزیر قانون کے عہدے کا چارج لے چکا ہوں،صوبائی وزیر قانون بننے کے بعد عدالت میں بطور وکیل پیش نہیں ہو سکتا،انصاف کے تقاضوں کیلئے مقدمے کی 28 ستمبر کی سماعت ملتوی کردی جائے،

دوسری جانب آَئی بی نے بھی نظرثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق انٹیلی جنس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر اسداللہ خان نے متفرق درخواست دائر کردی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ انٹیلیجنس بیورو فیصلہ کیخلاف نظرثانی واپس لینا چاہتا ہے،متفرق درخواست منظور کرکے نظرثانی درخواست واپس لینے کی اجازت دی جائے

 تحریک انصاف، الیکشن کمیشن، اعجاز الحق اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں

 

Leave a reply