ادھوری محبت تحریر: ڈاکٹر نجیب اللہ

یہ اس وقت کی بات ہے جب ھم کالج میں پڑھتے تھے سردیوں کی رات تھی اور دوستوں کے ساتھ ہاسٹل کے کمرے میں بیٹھ کر غمگیں ٹپے سن رہے تھے جبکہ باہر ہر طرف زمین نے سفید چادر اوڑھ لی تھی اور روئی جیسے نرم برف باری ابھی جاری تھی دل کرتا کہ باہر نکل کر خوب کھیلوں لیکن اس وقت ٹیمپریچر مائنس 10 کے قریب تھا تو صحت اور پردیس کا سوچ کر غمگیں میوزک سے محظوظ ہورہے تھے
اتنے میں موبائل پر کال کی آواز سنی ڈاکٹر شان کی کال تھی ، عموماً میں رات کے وقت کال کا جواب نہیں دیتا لیکن پتہ نہیں اس دن جواب دیا ، ھیلو کے ساتھ ہی جناب چیختے چلاتے ہوئے رو پڑے جیسے برف کی وجہ سے اس کی دنیا ڈوب چکی ہوں، معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن معاملہ کچھ آسان نہیں تھا ، جو کال پر سمجھ آتی ، اتنے میں ھم باہر نکل پڑے اور اس کی طرف جانے لگے تھے یہ رات کے 3 بج رہے تھے چاروں طرف برف اور سردی کی راتوں کا خاموش سناٹا ، لیکن اس وقت بھی ایک انسان ہاسٹل کے سامنے والے بینچ پر بیٹھ کر وائلن بجانے کی کوشش کر رہا ہے، وہ چائنیز زبان کا ایک مشہور گانا بجا رہا ہے جو ھمیں توڑی بہت سمجھ آرہی ہے ، ھم اپنے دوست کو لینے کے بجاۓ وہی بیٹھ گئے، اپنے دوست کی کہانی تو معلوم نہیں کر سکے لیکن وہاں تاریک رات میں وائلن بجانے والے کی کہانی ادھوری محبت کی داستان سنے میں دلچسپی لی ، سرکار کو محبوبہ نے آزمانے کی نیت سے یہ ٹاسک دیا تھا کہ روز رات کو ہاسٹل کے سامنے وائلن بجانا ہے اور یہ بچارہ اتنی سردی میں محبت کو حاصل کرنے کیلئے روز وائلن بجانے پہنچ جاتے تھے لیکن ظالمہ محبوبہ کو زرا بھر ترس نہیں آیا ، خیر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے اتنے میں اپنے ناکام عاشق دوست کی بھی یاد آگئی کہ اتنی رات کو رونا دھونا اور پھر اچانک خاموش ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سرکار کو پھر سے کوئی دھوکا دے گیا ہے
کسی نے کیا خوب لکھا ہے
اسے میں نے ہی لکھا تھا
کہ لہجے برف ہو جائیں
تو پھر پگھلا نہیں کرتے
پرندے ڈر کے اڑ جائیں
تو پھر لوٹا نہیں کرتے
اسے میں نے ہی لکھا تھا
کے شیشہ ٹوٹ جاۓ تو
کھبی پھر جڑ نہیں پاتا
جو رستے سے بھٹک جائے
وہ واپس مڑ نہیں پاتا
اسے کہنا وہ بے معنی ادھورہ خط
اسے میں نے ہی لکھا تھا
اسے کہنا کہ دیوانے
مکمل خط نہیں لکھتے

@DrNajeeb133

Comments are closed.