عدلیہ نے آئینی بحران سے ملک کو بچایا
حالیہ سیاسی بحران میں، سابق اپوزیشن جماعتوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ تاہم ڈپٹی سپیکر نے عدم اعتماد کا ووٹ مسترد کر دیا اور عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کیں لیکن پھر سپریم کورٹ قانون کی علمدراری کے لئے میدان میں آئی اور تاریخی فیصلہ دیا ،سپریم کورٹ نے عمران خان کے غیر آئینی اقدام کے خلاف سوموٹو ایکشن لیا پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین کے مطابق عدالت آزاد ہوگی۔ "آزاد عدلیہ” کیا ہے اس کا بہتر اندازہ حاصل لگانے کے لیے عدالتی آزادی کے بنیادی اصولوں کا استعمال کریں۔عدالت کو "خودمختار” کہا جاتا ہے ایک جج کا انتخاب منصفانہ طریقے سے کیا جاتا ہے، اور وہ اپنا کام اس طریقے سے کرتا ہے جو انصاف کے اصولوں کے مطابق ہو۔ جہاں جمہوریت ایک سیاسی نظام ہے جہاں حکومت کا انتخاب انتخابی عمل سے ہوتا ہے جبکہ عدلیہ قانون کی حکمرانی قائم کرتی ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں آئین کی محافظ ہیں جو بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہیں اور قانون کی حکمرانی قائم کرتی ہیں۔
درحقیقت سیاسی جماعتیں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر سیاست کرتی ہیں جب بھی فیصلہ ان کے حق میں نہیں آتا۔لہٰذا مختصر یہ کہ یہ عدلیہ نہیں بلکہ کمزور سیاسی نظام ہے جو عدم استحکام اور انتشار پیدا کرتا ہے۔عدلیہ ان سیاسی مسائل کا حصہ بننے سے گریز نہیں کر سکتی کیونکہ اس میں آئین اور قانون کی حکمرانی شامل ہے اور عدلیہ آئین کی محافظ ہے۔ ملک کی عدالتی تاریخ بتاتی ہے کہ جج آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور پارلیمانی خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے بغیر کسی خوف اور حمایت کے فیصلے کرتے ہیں۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے بنچ نے آئینی تباہی کو ٹال دیا۔ جب سے یہ ملک بنا ہے پاکستان میں انصاف کا مستحکم نظام موجود ہے۔قانون کی حکمرانی برقرار ہے اور عدلیہ آزاد ہے۔ آزاد عدلیہ ہی ملک کے لئے اچھے فیصلے کر سکتی ہے اور قانون و آئین شکنوں کو سزا دے سکتی ہے