افغانستان کے تیزی سے بدلتے جرنیل اور صورتحال تحریر: سمیع الله خان

0
38

گزشتہ دو ماہ کے دوران تیسری بار افغانستان کا آرمی چیف تبدیل ہوا، نئے آرمی چیف جنرل ھیبت اللہ علیزئی کی عمر صرف 35 سال ہے۔ نئے افغان آرمی چیف کی عمر کا عدد جان کر مجھے محمد بن قاسم اور الیکزینڈر کی یاد آئی۔ جنرل ھیبت اللہ اس وقت خطے کے سب سے کم عمرترین آرمی چیف ہیں اور آپ کا جنگی تجربہ بھی آپ کی عمر کی طرح تھوڑا ہی ہے۔ یہ نوجوان آرمی چیف جہاں ایک طرف میدان جنگ میں فعالیت دیکھا رہا ہے وہیں مختلف سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر بھی اپنی ساکھ کو بہتر کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ جبکہ اس کے برعکس دیکھا جائے تو افغان طالبان مسلسل مختلف علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، اور اس وجہ سے قابل انتظامیہ میں پیدا ہونے والی افراتفری ان کے آرمی چیف کے تبادلے کے فیصلے سے صاف عیاں دیکھائی دے رہی ہے۔
رواں ہفتے طالبان نے افغانستان کے شمالی حصوں پر ایک کے بعد ایک پر قبضہ کیا، اس دوران یا تو افغان فورسز کو پسپائی کا سامنا رہا یا پھر انہوں نے ہتھیاروں، گاڑیوں اور ٹینکوں سمیت طالبان کے آگے تسلیم ہوتے گئے۔ البتہ سماجی رابطوں کے ویب سائیٹوں (فیسبک اور ٹوئٹر) پر طالبان اور افغان حکومت مختلف دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ جہاں طالبان ٹوئٹر پر افغان سیکیورٹی فورسز کی تسلیم ہونے والے تصاویر اور ویڈیوز کو ڈال رہے ہیں وہیں لشکر گاہ میں جنرل سمیع سادات ٹوئٹر کو ’پی آر‘ کے ایک ٹول کے طور پر بروئے کار لا رہے ہیں۔ وہ لشکرگاہ میں مقامی افراد اور دوکانداروں کے ساتھ فوٹوز کھینچ کرٹوئٹر پر اپلوڈ کرتے رہتے ہیں۔ سمیع سادات 36 سالہ نوجوان جنرل ہیں اور اس وقت جنوبی افغانستان کے اعلیٰ ترین فوجی افسر ہیں۔ سمیع سادات کو کچھ روز قبل کابل کی طرف سے ’سپیشل فورسز‘ کی سربراہی کی ذمہ داریان بھی دی گئیں ہیں۔ افغانستان کے فوجی قیادت میں ان مسلسل تبدیلیوں کو دیکھ مجھے جنرل اشفاق پرویز کیانی کیام وہ بات یاد آ گئی کہ جب ایک افغان حکومتی عہدیدار نے ان سے کہا کہ جنرل صاحب! ہم ایک بڑی فوج بنا رہے ہیں، جب امریکہ یہاں سے نکلے گا تو وہ ہمارے محافظ ہونگے۔ اس پر جنرل کیانی نے کہا کہ جب وسائل ہونگے تو فوج تو آپ بنا لوگے مگر اس کا سپہ سالار کون ہوگا؟ کیونکہ فوج کی کمان جو سنبھالتا ہے اس کیلئے کم از کم تیس سالہ تجربہ درکار ہے ورنہ تو فوج کی تعداد تو ایک ریت کی دیوار ہوگی۔
افغانستان میں حالات توقع سے زیادہ تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ملک کے صرف 20 سے 25فیصد حصہ کابل انتظامیہ کے گرفت میں ہے، اب یہ گرفت کتنی مضبوط ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں جلنے والی یہ آگ کابل کے قریب آن پہنچی ہے اور جلد یا بدیر کابل بھی اس آگ کی لپیٹ میں آ جائیگا۔ امریکہ نے بھی ہاتھ کھڑے کر دئے ہیں اور پینٹاگون نے پاکستان پر الزامات لگانے شروع کر چکا ہے جسکے بارے میں ریاست پاکستان پہلے ہی خبردار کر چکی ہے کہ امریکی اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ایسے الزامات لگا سکتا ہے، امریکی صدر بائیڈن نے بھی دو روز قبل وائٹ ہاوس میں کہا ہے کہ افغانستان میں فوج موجود ہے جو کہ طالبان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جبکہ یہاں میدان میں تو افغان فوج پے در پے پسپائیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ گزشتہ روز وائٹ ہاوس نے طالبان کے کابل پر قبضے کے حوالے سے سوال پر کوئی تبصرہ دینے سے ہی انکار کر دیا۔ افغان حکومت بھی اپنی ناکامیوں کا بوجھ پاکستان کے کاندھے پر ڈالنے کیلئے کوشاں ہے اور جن کے مشوروں پر کابل چل رہا ہے انہیں خود بھی خوف محسوس ہو رہا ہے، کیونکہ جہاں وہ پاکستان کی مخالفت کی وجہ سے غنی انتظامیہ کو سپورٹ کر رہے تھے اب طالبان کے ڈر کی وجہ سپورٹ کر رہے ہیں۔ کابل کو امریکہ طالبان کے دوحہ مذاکرات میں نظراندازی اور پھر اشرف غنی انتظامیہ کی مذاکرات کے حوالے سے ہٹ دھرمی اب انہیں مہنگی پڑ رہی ہے، جہاں ایک طرف امریکہ پاکستان پر دباو کیلئے کوشاں ہے کہ آپ طالبان کو افغان حکومت کیساتھ مذاکرات کیلئے بیٹھاو تو دوسری طرف افغان حکومت کا پاکستان سے متعلق رویہ شرمناک ہے، پاکستان نے تو عید کے بعد اسلام آباد میں مذاکرات کی بیٹھک رکھی تھی اور طالبان، افغان حکومت کو دعوت بھی دی تھی مگر افغان حکومت نے وہ دعوت اپنی رویئے کی وساطت سے رد کر دی اور مجبوراً پاکستان کو وہ صلحہ کی بیٹھک غیراعلانیہ طور پر موخر کرنی پڑی۔ اب تو پاکستان نے یہ تک کہ دیا ہے اشرف غنی کے ہوتے ہوئے طالبان مذاکرات کی میز پر آنے کیلئے تیار نہیں ہے، شاید اشرف غنی اپنی حکومت بچانے اور امن کا وہ واحد موقع ضائع کر دیا ہے جو اسے پاکستان دے رہا تھا۔ امریکہ پاکستان پر تو دباو ڈال رہا ہے مگر کابل پر اپنے رویئے کی درستگی کے حوالے سے خاموش ہے۔
افغانستان میں طالبان کے پے در پے فتوحات پر بھی کافی سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔ اس قلیل مدت میں اتنی زیادہ علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنا ناممکن ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ طالبان نے ان علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے سے قبل علاقہ مشیران اور عمائدین سے مختلف قسم کی ملاقاتیں کی ہو اور ان عمائدین نے طالبان سے کئی قسم کے ضمانت لی ہونگی۔ اس محدود وقت میں ضلع پر ضلع، شہرہ پر شہر کے کنٹرول سے قبل اگر سالوں کی نہیں تو کم از کم مہینوں کا کام ضرور ہوا ہو گا اور خدا جانے کہ عمائدین اور طالبان کے درمیان کیا معاہدے طے پائے ہونگے۔

Leave a reply