‏اٖفغان باقی ، کہسار باقی محمد عتیق گورائیہ

افغانستان میں ایک بار پھر سے عالمی طاقت کے تکبر کو ، رعونت کو اور اس کے غرور کو خاک میں ملا دیا گیا ہے ۔ امریکا جو ناٹو کو لے کر جدید ترین اسلحہ و ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوکر میدان میں اترا تھا اور افغانستان کے باسیوں کو پتھر کے دور میں بھیجنے کے درپے تھا ۔ لمبے عرصے تک طالبان سے نبرد آزما رہا اور علاقوں پر علاقے قبضے میں کرتا رہا ۔ بدنام زمانہ تشدد کیا گیا ، جدید ترین اسلحہ بنا کر اہل افغانستان پر آزمایا گیا ۔ طالبان نے ایک ایسی جنگ کی داغ بیل ڈالی جس نے امریکا کو شروع میں باور کروایا کہ وہ جیت رہا ہے اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ طالبان حاوی ہوتے رہے ۔ امریکا اپنے سپاہی ، اپنا مال و زر ، اپنی ٹیکنالوجی اور اپنے تعلقات کو استعمال کرتا رہا ۔ ہم ساے میں پاکستان ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ دباو پاکستان کو برادشت کرنا پڑا۔ دہشت گردی کا سب سے دکھ اہل پاکستان نے جھیلا۔ افغانستان کی آڑ میں دہشت گردانہ گروپ بھارت و دیگر ملکوں نے متحرک کیے اور انھیں پاکستان بھر میں پھیلا دیا جس سے ہزاروں کی تعداد میں شہداء کے خون نے پاکستان کی زمین سیراب کردیا۔ میرے تجزیے کے مطابق پاکستان شروع میں تو رسمی طور پر اس سارے مسئلے میں شامل ہوا اور پھر جب بھارت نے دل چسپی لینی شروع کی تو پاکستان نے مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں اپنے کھلاڑی پھیلا دئیے ۔ اس وقت اگر کابل میں طالبان قابض ہیں تو جہاں طالبان کی فتح ہے وہی پر پاکستان نے بھارت کو بھی شکست دی ہے وہ جو افغانستان میں قونصل خانے بنا کر پاکستان میں من پسند افراد کو سپورٹ فراہم کرتا تھا ، ناکام و نامرادہوا ہے ۔

امریکا کی طرف سے افغان فوج کو جدید اسلحہ اور تربیت کی خاطر ایک سو ارب ڈالر سے زائد کی رقم خرچ کی گئی تھی ۔ افغان نیشنل گارڈز کو جدید ترین اسلحہ سے مسلح کیا گیا جو کہ طالبان کے سامنے بھیگی بلی بن چکے ہیں ۔ طالبان کے سامنے شاید ہی افغان فورسز کا کوئی کمانڈر ٹھہر پایا ہو ۔ جب امریکا نکلا اور پیچھے صرف افغان فورس رہ گئی تو اصل کھیل شروع ہوا جس کا طالبان کو عرصہ دراز سے انتظار تھا ۔ افغان حکومت امریکا و ناٹو کی بیساکھیوں کے سہارے تھی جب وہ ہاتھ سے نکلیں تو حکومت مہینہ بھی نہ نکال پائی ۔ وار لارڈ دوستم سمیت بڑے بڑے نام افغانستان سے راہ فرار اختیار کرکے دیار غیر میں پناہ گزین ہوچکے ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت کے پاس سواے فضائی حملوں کے کوئی بھی قابل ذکر ہتھیار نہ تھا ۔ جیسے جیسے طالبان قابض ہوکر صوبوں کا انتظام سنبھالتے گئے ویسے ویسے غنی انتظامیہ کے ہاتھ سے بہت کچھ نکلتا گیا ۔ طالبان اس وقت کابل میں صدارتی محل میں بیٹھ چکے ہیں اور اپنی حکومت قائم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں ۔ اس وقت کے طالبان تجربہ کار و منجھے ہوے کھلاڑی ہیں ۔ گو سفارت کاروں کی اکثریت اپنے اپنے ملک واپس جارہی ہے لیکن اندرون خانہ طالبان سے سبھی کے روابط ہیں ۔ بھارت تو گدھے کے سر سینگ کی طرح غائب ہوا ہے اس کا کچھ اتا پتا نہیں مل رہا ۔ چین اور روس سمیت کچھ ممالک نے اپنے سفارت کار افغانستان میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ چین نے طالبان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے اور انھیں مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اگر چین ایسا کرتا تو دیگر ممالک بھی اس کی تقلید کریں گے ۔ یہ پہلی کڑی ہوگی جو ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرے گی۔
طالبان نے جہاں کابل کو گفت و شنید حاصل کرکے اپنے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا ہے وہی بڑی خون ریزی سے بھی اہل وطن کو بچا لیا ہے ۔ طالبان کی طرف سے عام معافی کا اعلان ہوچکا ہے اور سوشل میڈیا پر وائرل تصاویر کے مطابق کابل میں امن و سکون ہے بلکہ ایک ویڈیو کے مطابق تو اہل کابل نے طالبان کا استقبال کیا ہے اور طالبان نے بھی داخلے کے فوری بعد نظم و نسق کو بہتر بنانے اور چوری چکاری کو روکنے کی کوششیں شروع کر دی تھیں ۔ ملا عبدالغنی برادر دوحا سے کابل پہنچ گئے ہیں اور طالبان کی طرف سے امریکی مفادات پر حملے بھی نہیں ہوے جس کا مطلب ہے کہ دونوں طرف سے معاہدوں کی پاسداری کی جارہی ہے ۔ بہرحال بات یہ ہے کہ امریکا لاکھ کوششوں کے باوجود طالبان کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے اور طالبان نے لمبے عرصے تک جدوجہد کرتے ہوے پھر سے کابل میں واپسی کو یقینی بناکر ثابت کردیا ہے کہ اگر نیت خالص ہو ، عمل پیہم ہو اور جہد مسلسل ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں ۔ سب سے بڑی غلطی جو امریکا سے ہوئی ہے وہ انخلا کے وقت سیاسی سیٹ اپ کا تشکیل نہ دیا جانا تھا ۔ اقتدار میں اس وقت طالبان مضبوط قدم جما چکے ہیں اور ایسے میں افغانستان میں ایک بار پھر سے امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ اگر یہ ممکن ہوتا ہے تو پاکستان میں 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کی واپسی بھی ممکن ہوسکے گی ۔ اس وقت ضرورت ہے کہ پاکستان سمیت افغانستان کے خیر خواہ ممالک جن میں چین بھی شامل ہے کو بدخواہوں پر نظر رکھیں ۔ سازشی ٹولہ مختلف حیلوں بہانوں سے امن کی چادر اوڑھتے افغانستان کو دہشت زدہ کرسکتا ہے ۔ طالبان کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے کچھ بھی ممکن ہے ۔ بھارت اپنی لازمی کوشش کرے گا کہ وہ کچھ الٹا سیدھا کرکے پاکستان کو بدنام کرے لیکن ہمیں اس سارے معاملے میں چوکنے رہنا ہوگا۔ افغانستان افغانیوں کا ہے اور اس پر انھیں کی حکومت ہونی چاہیے جو بغیر کسی بیرونی دباو کے اپنے فیصلے کرنے پر قادر ہو ۔

Leave a reply