1973 میں افغانستان کی شہنشاہیت کا دور ختم ہوا تو داؤد خان نے جمہوری خطوط پر ملک کو استوار کرتے ہوئے اپنے لیے صدر کا عہدہ سنبھالا ، داؤد خان پاکستان کے سخت خلاف تھا، پاکستان کے پشتونوں اور بلوچوں کو ملک پاکستان سے علیحدگی کے لئے بہت ساری اندرونی سازشیں شروع کر کے پاکستان میں کئی دہشت گرد حملے بھی کروائے، اسی سلسلے میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی افغانستان پراکسی جنگ کا سلسلہ شروع کیا تھا جو آنے والے دن میں بڑھتا چلا گیا اور یہ آج تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تعلقات کے لیے مسئلہ ہے، دیکھا جائے تو 1979 کے آخر میں جب روسسی یونین نے افغانستان پر غیر انسانی حملہ کیا اور اس بدترین حملے سے لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوا، لاکھوں گھر اجڑے، ہر طرف خوف و حراس پھیل گیا تو لاکھوں افغانی خاندان پاکستان کے بارڈر کو کراس کر کے پاکستان آئے، پاکستان نے ان کو گھر دئیے اور ملک میں کہیں بھی رہنے کام کرنے کا اجازت نامہ دیا، اس کے علاؤہ پاکستان نے اپنے فوجی دستے اور عام عوام کو افغانستان کیلئے روس کے خلاف جہاد کرنے کیلئے بھی بھیجا، اور بالآخر 1989 کے شروع میں روس کو شکست دے کر اس خطے سے نکال دیا گیا.
2001 میں امریکہ یورپ سمیت دنیا بھر کی پاوفل افواج افغانستان میں اتر آئیں جن کا نظریہ افغانستان سے دہشت گردوں گردہ کا خاتمہ اور امن قائم کرنا تھا جہاں ان کا تصادم افغان طالبان سے تھا جن کا نظریہ جہاد اور افغانستان میں مکمل طور پر اسلام کا قانون نافذ کرنا تھا، جہاں کوئی بھی شخص اسلام کی حدود سے باہر کوئی ذاتی طرز زندگی کا حامل نہیں ہو سکتا تھا، 20 سال تک یہ جنگ چلتی رہی مگر دنیا کی تمام طاقتور افواج افغان طالبان کو زیر نہ کر سکیں، تو بات معاہدے پر آئی جو کہ 2020 کے شروع میں کیا گیا، جس کے تحت تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے واپس نکلنے لگیں اور معاہدے کے مطابق افغانستان سے نکلنے والی افواج ہر طالبان حملہ آور نہیں ہوں گے ،
متحدہ ممالک کی افواج کے انخلا کے بعد اب افغانستان ایک نئی جنگ سے دوچار ہے جس میں موجودہ افغان حکومت اور طالبان مد مقابل ہیں، جہان تک طالبان کی بات ہے تو پورے ملک میں اپنی مرضی کے قوانین نافذ کرنے کی ٹھان چکے ہیں اور موجودہ حکومت کسی طرح بھی ان کو روکنے کیلئے سرگرم ہے، حتی کہ افغان حکومت کسی طرح کے معاہدے کی بھی حامل نہیں، اور طالبان کو نئے علاقوں پہ قابض ہونے سے تو اعلانیہ طور پر روک بھی رہی ہے اور طالبان کے زیر سایہ علاقے بھی واپس چھیننے کی جسارت کر رہی ہے، اس وقت ملک میں خانہ جنگی کی شدت ہے، جس کے اثرات نہ صرف افغانستان بلکہ ہمسایہ ملکوں کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں.
افغانستان کی عوام کو اپنی موجودہ حکومت پر کوئی بھروسہ نہیں، عوام موجودہ حکومت کو کرپٹ اورچورحکومت سمجھتی ہے جس کو اپنے ملک کی عوام کی فلاح و بہبود کی کوئی فکر نہیں ہے ، مگر عوام میں طالبان کا ایک خوف طاری ہے ، عوام میں یہ بات عام ہے کہ طالبان نے جو علاقے فتح کئیے اور اپنے قوانین لاگو کئیے وہاں عورتوں کا گھرسے باہرنکلنے کی اجازت نہیں، مردوں کو ہر صورت داڑھی رکھنے کا لازم و ملزوم قانوں ہے اور مختلف اسلامی روایات کو ڈنڈے کے زور پر لاگو کرنے کے حامل ہیں، اس خوف سے عوام کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ کرپٹ حکومت کو تو سہن کر سکتے ہیں مگر طالبان کی طرف سے سختی اور زبردستی سے لاگو کردہ قوانین کو سہن نہیں کر سکتے، جبکہ طالبان کے بیان کے مطابق اس طرح کی کوئی زبردستی قانونی حیثیت رائج نہ کی ہے اور نہ کی جائے گی.
ایک تجزیے کے مطابق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے افواج کی انخلا کا عزم اس لئیے کیا تاکہ پاکستان دشمن قوتیں اپنی ضمیر فروش تنظیموں کو پاکستانی بارڈر کے ساتھ قبضہ کرنے کا موقع فراہم کرے جو پاکستان کے اندر دہشت گرد حملے کریں اور سی پیک کو نقصان پہنچائیں، جس ہر پاکستان نے اظہار تشویش بھی کیا ہے.
عوامی رائے کی مانیں تو افغان عوام اپنی ایمان فروش حکومت سے انتہائی نالاں اور برہم ہے، تو اسی سلسلے میں افغان طالبان کو اپنے قوانین میں انفرادی آزادی، محبت اور تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام ہو، اورمزید یہ کہ پاکستان اورایران سے تمام افغان مہاجر اپنے ملک واپس جاسکیں، اس خطے میں کوئی بدامنی باقی نہ رہے، اللہ عالم اسلام کو آزادی اور سکون عطا کرے اور بدامنی اور خونریزی سے محفوظ رکھے.
@IshaqSaqii








