اگلے سال گیس نہیں‌ ملے گی، عمران خان کی ناک تلے اربوں کا ڈاکہ، اپنے ہی مشیر قوم کو چونا لگانے لگے

0
111

اگلے سال گیس نہیں‌ ملے گی، عمران خان کی ناک تلے اربوں کا ڈاکہ، اپنے ہی مشیر قوم کو چونا لگانے لگے

باغی ٹی وی : سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ آپ کو بتائیں گے کے کیسے موجودہ حکومت کی ناک کے نیچے قوم کو لوٹنے کا کام بڑے زور شور سے جاری ہے
کیسے پٹرول اور گیس کے نام پر اربوں روپیہ غریب عوام کی جیب سے نکالا جا رہا ہے ۔اور سسٹم بلکل بے بس ہو چکا ہے۔ اور کرپٹ لوگ اپنی جیبیں گرم کرنے میں مصروف ہیں۔ہم وزیر اعظم عمران خان کی بحثیت اپوزیشن پارٹی کے لیڈر بہت سی ایسی تقریں سن چکے ہیں جو انہوں نے سابقہ حکمرانوں کے خلاف کی لیکن بدقسمتی سے پھر انہیں اسی راستے پر چلنا پڑا۔ عمران خان اپنے دھرنوں میں سر عام پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی مخالفت کرتے تھے ، سول نا فرمانی کا نعرہ لگا کر بجلی کا بل پھاڑتے تھے لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں جس بے دردی سے ان چیزوں کی قیمتیں بڑھانے کی اجازت دی اس کی مثال نہیں ملتی اور تو اور جس کرپشن کے ڈھول وہ بحثیت اپوزیشن لیڈر پیٹتے تھے اس سے بھی خوفناک کرپشن ان کی ناک کے نیچے ہوئی اور پھر انہیں اپنے ہی مشیر سے استعفی لینا پڑا۔ کبھی ملک آٹا مافیا کے شکنجے میں تو کبھی چینی مافیا کے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ یہاں تک کہ مہنگائی مافیا نے حکومت کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے اور حکومت زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ بھی کرنے سے قاضر ہے۔زمیندار آلو بیس روپے کلو فروخت کر رہا ہے لیکن لوگوں کو آج بھی نیا آلو100روپے کلو دستیاب ہے جبکہ پرانا آلو بھی پچاس روپے کلو مل رہا ہے۔ ہر چیز کوStoreکر کے اپنی مرضی اور اپنی قیمتوں پر نکالا جا رہا ہے اور کوئی مائی کا لال ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔وزیر اعظم تین ماہ پہلے قوم کو یہ بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ اس دفعہ گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اپنے مشیروں سے یہ نہیں پوچھتے کہ اس گیس کے بحران کو ختم کرنے کے لیئے انہیں نے کیا اقدامات کیئے ہیں، اور پھر پوری قوم کے سامنے آتا ہے کہ حکومت نے سردیوں کی گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ایل این جی کا آرڈر ہی نہیں دیا۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ سارا زور سیاسی پوائنٹ سکورنگ پر مرکوز ہے کے قطر سے مہنگی گیس لے لی۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ ملکی ضرورت کا صرف دس فیصد قطر سے منگوایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے وزیر اعظم کے اپنے منہ سے سنا کہ سارے سودے تو سابق حکومت کر کے چلی گئی ہے ہم کیا کریں۔ اس وقت ملک کو ماہانہ بارہ ٹینکر ایل این جی کی ضرورت ہوتی ہے جس میں سے سابق حکومت نے پانچ گارگو کے سودے کیئے ہیں باقی سات کارگو کے سودے موجودہ حکومت نے کرنے ہوتے ہیں تو ان سات سودوں میں کیا تیر مارا گیا۔ انہیں آخری وقت پر ایرجنسی میں مہنگے داموں کیوں خریدا گیا۔
ہمارے پاس خبر آتی ہے ملک کی معیشت اپنے پاوں پر کھڑی ہو گئی ہے پھر خبر آتی ہے وزیر خزانہ کو خراب کارکردگی پر فارغ کر دیا گیا۔
بھائی ملک کی معیشت بحال ہو گئی تھی تو نیا وزیر خزانہ لانے کی کیا ضرورت پڑی اور پھر نیا وزیر خزانہ آ کر بتاتا ہے کہ ملک ڈھائی سال میں برباد ہو چکا ہے۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ وہی مشیر پٹرولیم جو بتا رہا تھا کہ سابقہ حکوتو ں نے انرجی کے معاملے میں کیا گند کیا پھر اسے بھی مافیا کا ساتھ دینے پر نکال دی جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے LNG terminalمیں گپلے ہوئے لیکن پھر اپنے دور میں گیس کے ذخائر بڑھانے کےلیئے ایک بھی ٹرمینل نہیں بنایا گیا۔ آپ کی ناک کے نیچے کرپشن ہو رہی ہے اور پھر آپ انہی کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں۔ ایکشن اس ملک میں ستر سال سے لیئے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کا حاصل کیا ہے۔ جو اربوں روپے غریبوں کی جیبوں سے نکالے جا رہے ہیں وہ کون واپس کرے گا۔دس دس سال یہ کیسز چل کر نظریہ ضرورت کا شکار ہو جائیں گے۔ جیسے عمران خان کو نئے وزیر خزانہ کو لانے کے لیئے انہیں نیب سے
Clearance certificateدلوانا پڑا۔ قصہ کچھ اسطرح ہے کہ 31 مئی2020 کو جب حکومت کی طرف سے قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا ور پاکستان میں پٹرول کی قیمت74 اعشاریہ 52 روپے پر آ گئی تو پورے ملک میں پٹرول کا بحران پیدا کر دیا گیا۔ مافیا نے پٹرول چھپا لیا اور یہ سب عمران خان کے مشیر پٹرولیم کی مل بگھت سے ہوا۔ جب چور چوکیدار مل جائیں تو یہی ہوتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لیتے ہوئے
9
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ جون کو متعلقہ حکام سے اس مصنوعی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا کہا ۔
کچھ روز بعد ہی اوگرا کی جانب سے چھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر کل چار کروڑ روپے کے جرمانے عائد کیے گئے
سیکرٹری پٹرولیم نے جن کمپنیوں پر جرمانے عائد کیئے وہ خود ان کا چیئرمین تھا۔ اپنے آپ کو جرمانے کرنے کی کلاسیکل مثال بھی اسی دور حکومت میں دیکھنے میں آئی۔
لیکن اس کے باوجود پیٹرول کا بحران ویسا ہی رہا۔
پھر قوم کو بتا یا گیا کہ پٹرول کی قیمت میں پچیس روپے اضافہ کرنا ضروری ہے اور پھر یہ جادو ایسا چلا کہ
اس فیصلے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد پیٹرول کی سپلائی معمول پر آ گئی ۔

ایل این جی کی بات کریں تو وہاں بھی انسان حقائق دیکھ کر شرما جاتا ہے۔
عوام کے پیسوں پر اربوں کا ڈاکہ ڈالا گیا۔
ایل این جی سپلائرز کو اضافی ادائیگیاں کر دی جاتی ہیں۔ وقت پر ایل این جی کا آرڈر نہیں کیا جاتا۔ پھر جب
shortage
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ہوتی ہے تو ایمرجنسی میں مہنگی ایل این جی خریدی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مارچ کے آخر میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر سے استعفیٰ مانگ لیا تھا۔ اس کے علاوہ سیکرٹری پٹرولیم کو بھی عہدے سے ہٹانے یا تبادلہ کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اور ایل این جی سپلائرز کو جو اضافی ادائیگیاں ہوئیں تھیں اس کی ذمہ داری پی ایل ایل کے سابق ایم ڈی اور
CFO
پر ڈالی گئیں تھیں۔
انکوائری رپورٹ میں پتہ چلا کہ ایل این جی سپلائرز کو 2 کروڑ 75 لاکھ ڈالرز کی اضافی ادائیگی کی گئی تھی جس کی ذمہ داری مینجنگ ڈائریکٹرعدنان گیلانی اورچیف فنانشل آفیسرندیم نذیر پرڈالتے ہوئے انہیں اوایس ڈی بنادیا گیا۔ کیونکہ یہ دونوں ایل این جی درآمدات دیکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ان دونوں حضرات کو سنگاپور کی
Gunvor
اور اٹلی کی ای این آئی کو دیگر ایل این جی سپلائرز پر ترجیح دینے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا کیونکہ زائد ادائیگی میں سے 2 کروڑ 23 لاکھ 83 ہزار 4 سو ڈالرز
Gunvor
اور ای این آئی کو ادا کیے گئے تھے جو کہ
Total extra payments
کا 80 فیصد بنتا ہے۔ نیب اور ایف آئی اے دونوں نے ان عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔
جبکہ عدنان گیلانی کا کہنا ہے کہ میں نے خود اس معاملہ سے پردہ اٹھایا اور
وزارت پٹرولیم ہمیشہ کی طرح اپنی نا اہلی دوسروں پر ڈال رہی ہے۔۔۔ مجھ سے ایم ڈی پی ایل ایل کے عہدے سے
اگست 2019
میں استعفیٰ لیا اور
اکتوبر 2020
تک کی اضافی ادائیگی کی اپنی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال دی
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ یہ تمام تفصیلات وہ ہیں جوکہ 31 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ میں سامنے آئی ہیں جو کہ چار رکنی کمیٹی نے سینئر جوائنٹ سیکرٹری ساجد محمود قاضی کی سربراہی میں تیار کی گئی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساجد محمود قاضی کون ہیں۔؟
ساجد محمد قاضی
PSO
کے بورڈ میں ہے اور اس معاملے کو اچھی طرح جانتا ہے۔
ان تمام
Findings
پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ سینئر جوائنٹ سیکرٹری ساجد محمود قاضی جو انویسٹی گیشن کمیٹی کی سربراہی کر رہے تھے وہ خود بھی
PSO board
میں شامل ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پانچ سال تک ایک بورڈ کے سامنے یہ سب ہوتا رہا اور اس وقت تو ان کو اس معاملے کا پتہ نہیں چلا لیکن کمیٹی بننے کے بعد وہ سب حقائق کو فٹافٹ سب کے سامنے لے آئے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ انہوں نے خود کو اور منسٹری کو بچانے کی کوشش کی اور دو افراد پر سارا الزام ڈال دیا تاکہ ان کی
Incompetency
سب کے سامنے نہ آجائے۔

لیکن میں آپ کو بتاوں کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ دو افراد پر اس کی ذمہ داری ڈال کر معاملے کو رفع دفع کر دیا جائے۔ یہ پڑولیم بحران اور اس انڈسٹری میں ہونے والی بدعنوانی اور بددیانتی دراصل پٹرولیم ڈویژن کے تحت
15
کمپنیوں میں جاری بدعنوانیوں کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادارے کو جو بھی نقصان ہو رہا ہو وہ ان کمپنیوں کی مالی کارکردگی رپورٹ میں کبھی سامنے نہیں آتا۔
اور یہ بورڈ آف ڈائریکٹرز والا معاملہ بھی بہت ہی
Interesting
ہے۔ ان تمام نقصانات میں یہ بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی ذمہ دار ہیں۔ ان کی ناک کے نیچے یہ ہوتا رہا لیکن یہ اس سب سے کیسے لاعلم رہے ان کی طرف سے کیوں اس معاملے پر سوال نہیں اٹھایا گیا۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ یہ بورڈ آف ڈائریکٹرز جن میں شامل ہر ایک ڈائریکٹر کو صرف میٹنگ کے لئے۔۔ چاہے وہ بورڈ میٹنگ ہو یا سب کمیٹی کی میٹنگ ہو۔۔ اس کے لئے تقریبا ایک لاکھ بیس ہزار روپے سے لیکر چار لاکھ روپے ادا کئے جاتے ہیں۔ یہ رقم بلا امتیاز خواہ بورڈ میٹنگ ہو یا سب کمیٹی کی میٹنگ ہو سب ڈائریکٹروں کو ادا کی جاتی ہے۔ اور ہر ماہ اس طرح کی کم سے کم تین میٹنگ ہوتی ہیں۔
اورایک ماہ میں پٹرولیم ڈویژن کے ڈائریکٹرز تقریبا ایک کروڑ روپیہ اپنے ساتھ اپنے گھر لے کر جاتے ہیں۔ یہ رقم ان کی معمول کی تنخواہوں اور مراعات کے علاوہ ہوتی ہے جو انہیں ملتی ہیں۔ جبکہ ان کے پاس نہ تو اس فیلڈ سے
Related
کوئی
Technical education
ہوتی ہے اور یہ ہی کوئی
Experience.
ان کو
Appoint
کرنے کے لئے میرٹ صرف اور صرف ذاتی پسند اور منظور نظر ہونا ہے۔ ان افراد کو نوازنے کے لئے یہ عہدے دئیے جاتے ہیں۔ جس کے بعد کوئی بہتر کام تو ہوتا نہیں ہے بلکہ کمپنی کے کاروبار میں غیر ضروری مداخلت اور رکاوٹ ڈالی جاتی ہے اور خود مالی فائدے اٹھائے جاتے ہیں۔ جبکہ ان کو آوٹ آف میرٹ لگانے والے ان سے اپنی مرضی کے غلط کام بھی کرواتے ہیں۔ جس سے ان کی جیبیں تو گرم ہو جاتی ہیں لیکن ملک کو اربوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔
ساتھ ہی
Conflict of interest
کی ایسی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ کہ ایک فرد جو کسی کمپنی کا کنٹرولر اور
Regulator
ہے وہی اس کمپنی کا چیئرمین بھی ہے۔ یعنی سیکرٹری پٹرولیم جو ان کمپنیوں کو ان کی نا اہلی کی وجہ سے ان پر جرمانے لگاتے ہیں۔ وہ خود ہی ان کے چئیرمین ہیں یعنی کہ وہ خود ہی خود کو جرمانہ کر رہے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں ہر چیز کا ہی غلط استعمال کیا جا رہا ہے یہاں بیوروکریسی کام کرنے کے لیئے تیار نہیں ہے کہ نیب بعد میں انہیں تنگ کرے گی جبکہ جو کام کر رہے ہیں وہ اس طرح کا کام کر رہے ہیں کہ ان کے کرتوت دیکھ کر پوری قوم کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ہم بحثیت قوم ایک دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ اس ملک کو لوٹنے والے اپنے اور اپنے بچوں کی بیرون ملک
Nationalities
لے کر بھاگنے کے لیئے تیار بیٹھے ہیں جبکہ نتائج اس ملک کی غریب عوام بھگت رہی ہے۔ جنہیں دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے سے زیادہ کی سوچ نہیں ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ان دو ٹیسٹ کیسز کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور ہر کوئی اپنی بوٹی کے لیئے ملک کی گائے ذبح کر رہا ہے۔ صرف مشیر پٹرولیم کو گھر بھیجنے سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بلکل نہیں۔۔ وہ تو پیسے بنا کر چلے گئے۔ بلکے خوش ہوں گے کہ جو ڈاکوں کا احتساب کرنے آیا تھا اسی کی ناک کے نیچے ڈاکہ ڈال دیا ہے۔کیا ان سے استعفی مانگنے کی بجائے انہیں ہتھکڑیاں نہیں لگنی چائیے تھی۔
کیا یہاں ضرورت نہیں ہے کہ ذمہ داران کو عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ باقی لوگ انہیں دیکھ کر خوف کھائیں اور ملک کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔
اگر ایسا نہیں ہو گا تو ان گدھوں کو قوم کی بوٹیاں نوچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور یہ سلسہ اسی طرح جاری رہے گا۔

Leave a reply