معروف صحافی رہنما جناب احفاظ الرحمن مرحوم کی یاد میں ایک تقریب کا انعقاد بقلم:اجمل ملک

29 ستمبر کو معروف صحافی رھنما جناب احفاظ الرحمن مرحوم کی یاد میں ایک تقریب منعقد کی گئی ۔ احفاظ ایک اصول پرست اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے والے صحافی تھے وہ اپنے ابتدائی دور سے ھی صحافی تنظیموں کی یونینوں سے وابستہ رھے-

انہوں نے معروف صحافی رھنما جناب منہاج برنا صاحب کیساتھ بھی کام کیا وہ PFUJ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس کے صدر بھی رھے لیکن وہ آخری دنوں میں ملک کی صحافتی تنظیموں سے سخت نالاں تھے انکی یاد میں منعقد ھونے والی تقریب سے مختلف شخصیات نے خطاب کیا اور اس خطاب میں موجودہ دور میں صحافیوں کی زبوں حالی اور صحافتی تنظیموں کے اختلافات زیر موضوع رھے –

PFUJ کے موجودہ سیکریٹری جنرل ناصر زیدی صاحب نے حسب روایت اچھی گفتگو کی اور صحافتی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کیلئے مخلصانہ مشورے دیئے PFUJ کے ایک دھڑے کے صدر جی ۔ ایم ۔ جمالی صاحب نے بھی بہت اچھی باتیں کیں اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ PFUJ کے اتحاد کیلیئے میں اپنے عہدیداروں کا استعیفی ایک گھنٹے کے نوٹس پر پیش کرنے کیلیئے تیار ھوں میں نے یہ پیشکش پہلے بھی کی تھی اور مظہر عباس صاحب کو بھی کہا تھا لیکن میں انتظار کرتا رھا کسی نے کوئی جواب نہیں دیا –

جی ایم جمالی صاحب کے دھڑے پر یہ الزام ھے کہ انہوں نے صحافیوں کو حکومت کیطرف سے ملنے والی 5 کروڑ روپئے کی گرانٹ اپنے ذاتی اکائونٹ میں جمع کروادی ھے ان پر یہ الزام درست ھے یا غلط ھے یہ تو واقفان حال ھی جانتے ھونگے لیکن PFUJ کے اتحاد کیلئے انہوں نے تقریب میں جو بات کی وہ بہت واضع اور اچھی تھی آئی اے رحمان صاحب نے بھی اپنے خطاب میں صحافتی تنظیموں کی یونٹی پر زور دیا اور کہا کہ سچی بات یہ ھے کہ آج معاشرے میں صحافیوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا لہذا انہیں معاشرے میں اپنا امیج بہتر بنانا ھوگا –

پروگرام کی سب سے دھواں دار اور خوبصورت تقریر جناب خورشید تنویر صاحب نے کی انہوں نے انتہائی درد مندانہ انداز میں سیاسی جماعتوں سے کہا کہ وہ صحافتی تنظیموں کی جان چھوڑ دیں اور ان میں دخل اندازی نہ کریں اور آج اگر ھم جائزہ لیں تو صحافتی تنظیموں کی تباھی کی زمہ دار یہی سیاسی جماعتیں ھیں جنہوں نے اپنے مقاصد کیلیئے صحافتی تنظیموں کو تقسیم کیا اس تقریب کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی تھا کہ ملک کے نامور صحافی احفاظ الرحمن کی یاد میں منعقدہ تقریب کے مکمل انتظامات کسی صحافتی تنظیم نے نہیں بلکہ ایک غیر صحافتی این جی او PILOP نے انجام دیئے اور اسکی نظامت کے فرائض بھی اس NGO کے ڈائریکٹر جناب کرامت صاحب نے سنبھال رکھے تھے وہ ھی کمپیئرنگ کر رھے تھے اور صحافیوں کی اس تقریب میں جسے انہوں نے چاھا اسی نے خطاب کیا-

آرٹس کونسل کا آڈیٹوریم مہمانوں سے بھرا ھوا تھا لیکن جب کرامت صاحب نے اس تعزیتی پروگرام میں شیما کرمانی کو ڈانس کرنے کیلیئے بلایا تو تقریبا آدھے لوگ اٹھ کر چلے گئے اور جو صحافی حضرات تشریف فرما تھے وہ حیران تھے کہ یہ کیا ھو رھا ھے اس ڈانس پر بیچارے احفاظ الرحن جیسے اصول پرست شخص کی روح نے نجانے کس کس پر لعنت بھیجی ھوگی مسلئہ یہ ھے کہ اگر صحافتی تنظیموں کے معاملات میں سیاسی جماعتوں اور طاقتور NGOs کا کردار اسقدر بڑھ جائے گا تو پھر انکی زبوں حالی پر حیرت کیسی کرامت صاحب کی این جی او PILOR اور اس تقریب کے دوسرے آرگنائزر جناب ناصر محمود صاحب کی این جی او NTFU نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان میں مزدوروں کو قانونی تحفظ دینے اور انکی فلاح و بہبود کے دعویدار ھیں اور اس حوالے سے انہیں بیرون ملک سے کروڑوں روپے ملتے ھیں-

انکی تنظیم پر یہ الزام بھی ھے کہ انہوں نے بلدیہ ٹائون حادثے میں جاں بحق ھونے والے 250 سے زائد غریب مزدوروں کے نام پر جرمنی سے فی کس لاکھوں روپئے وصول کیئے ھیں لیکن رقم ان غریب لوگوں کو نہیں دی ھے یہ الزام غلط ھے یا صحیح یہ تو وقت بتائے گا لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں ھے کہ غریب مزدوروں کے نام پر بیرون ملک سے رقم لینے والی ان دونوں NGOs نے ملک کے غریب مزدوروں کی فلاح و بہبود کیلیئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا ھے-

آج بیچارہ مزدور فاقہ کشی پر مجبور ھے ھماری ان تنظیموں سے مودبانہ درخواست ھے کہ وہ صحافیوں کی جان چھوڑیں اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کی اپنی ذمہ داری پوری کریں اور اپنے صحافی بھائیوں سے درخواست ھے کہ اپنے اندر یونٹی اور اخلاص پیدا کریں صحافت اس ملک کا چوتھا ستون ھے اور اس میں اتنی طاقت ھے کہ جس دن اس ملک کے مخلص صحافی اکٹھے ھو گئے دنیا کی کوئی طاقت ان کے سامنے کھڑی نہیں ھو سکے گی یہی احفاظ کا مشن تھا اور انشااللہ ھم اس مشن کو پورا کرینگے-

اجمل ملک
ایڈیٹر نوشتئہ دیوار

Comments are closed.