ایک تلخ حقیقت .تحریر: ریحانہ جدون

0
143

ایک تلخ حقیقت .تحریر: ریحانہ جدون
ہم اپنے خوابوں کو پانے کے لئے بہت کوشش کرتے ہیں اسکے لئے در در کی ٹھوکریں بھی کھاتے ہیں.. کئی بار ہمیں ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور پھر کبھی قسمت مہربان ہوتو انسان کامیابی کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے.
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ لوگ کامیابی کے مقام پہ پہنچ کر خود کو بڑا محسوس کرنے لگتے ہیں (سب نہیں مگر موسٹلی ایسا ہوتا ہے) وہ اپنے سے چھوٹے کو کمتر اور حقیر سمجھنے لگتے ہیں, وہ بھول جاتے ہیں جس خدا نے انکو کامیابی دی وہی خدا ان لوگوں کا بھی ہے جن کو وہ کمتر سمجھ رہے ہیں.
کیونکہ انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو, کتنا ہی کامیاب اور مشہور کیوں نہ ہو آ خر اُس نے اُسی مٹی میں دفن ہونا ہے جس میں ایک عام انسان دفن ہوگا, خاک سے بنا جسم آ خر خاک میں ہی تو ملنا ہے کیونکہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور یہ ہم سب جانتے بھی ہیں لیکن وہ وقت کونسا ہے اس راز سے ہم ناواقف ہیں.

موت ہی ایسی چیز ہے جسکے آ گے طاقتور سے طاقتور بےبس ہوجاتے ہیں. پھر نہ تو شہرت اور نہ روپیہ پیسہ اسکی موت ٹال سکتے ہیں اور نہ ہی ذندگی کے دن بڑھا سکتے ہیں.. اصل میں انسان اپنی عارضی خوشیوں کو پانے کے لئے اسقدر بہت آ گے نکل جاتا ہے کہ واپسی ممکن نہیں رہتی اور تب اُسے اللہ یاد آ تا ہے تب وہ سوچتا ہے کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا.
آ ج اپنے اردگرد دیکھ سکتے ہیں کونسا گناہ, کونسی ایسی بُرائی نہیں جس میں ہم کسی نہ کسی طرح جھکڑے ہوئے ہیں, کسی کے حق پہ ڈاکہ ڈالتے ہوئے, جھوٹ بولتے ہوئے, چوری, قتل , یا (یہ جو آ جکل معصوم بچوں کو نوچا جارہا) ہم اپنی موت کو کیوں بھول جاتے ہیں؟؟

ہم اپنے اس رب کو کیوں بھول جاتے ہیں جو ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے ؟
ہم کسی کی ذات پہ تہمت لگاتے زرا دیر نہیں لگاتے پر اپنے پہ بات آ تی تو ہزاروں دلیلیں لئے بیٹھے ہوتے خود کو بےگناہ ثابت کرنے کے لیے…
اللہ کے بندوں.. یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے
اللہ کے بندوں.. اللہ کے بندوں پہ ظلم کرتے کیوں بھول جاتے ہوکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے.
آ ج اللہ نے اگر شہرت دی پیسہ دیا, عہدہ دیا تو اسکا صحیح استعمال کرنا سیکھو, غلط استعمال کروگے تو ایک نہ ایک دن منہ کے بل گر جاؤ گے, اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کو حقیر مت جانو…
تمھارا تکبر کہیں تمھیں رسوا نہ کردے کیونکہ تکبر اللہ کو پسند نہیں.
کہیں کسی کی حق تلفی ہوتے دیکھو تو اسکو روکو
کہیں ظلم ہوتے دیکھو تو ظلم کے خلاف اپنی طاقت استعمال کرو اپنی آ واز بلند کرو.
اپنی غلطی کو تسلیم کرنا سیکھو, یہ دولت یہ شہرت آ پکو دنیا میں تا کام آ سکتی ہے پر آخرت میں تمھارے اعمال ہی تمھیں بچائیں گے..

کسی شہنشاہ کسی شہزادے یا کسی صدر کی میت کو کسی نے سجا کے نہیں رکھا… اور نہ کوئی رکھے گا. جانا اسی مٹی میں ہے جس میں ایک غریب ایک عام انسان جائے گا.
آ ج کسی عہدے دار کو دیکھ لیں لوگ اپنی درخواستیں لیے انکے انتظار میں گھنٹوں بیٹھے رہے ہونگے مگر وہ جب آ ئے گا تو ٹھاٹ سے اور انکو ٹھیک سے سنے گا بھی نہیں اور خود کو اپنے مقام (جو اللہ نے دیا ہوا) پر فخر کرتا گزر جائے گا.. کیا اس لئے اللہ نے تمھیں طاقت, عہدہ, مقام دیا ؟

دولت اور شہرت کے پیچھے بھاگنے والوں یہ ہمیشہ رہنے والی نہیں
بہتر ہے اپنی اپنی جگہ درست کرلیں کیونکہ یہ ذندگی تو عارضی ہے اسے ایک سفر سمجھ کے گزاریں. لوگوں کے دکھ درد میں کام آنا ہی ایک انسان کا کام ہے. دنیا کے لالچ میں اندھے ہوکے اپنی آ خرت نہ بگاڑیں.

Leave a reply