اللہ کے”شکر”کی کمی تحریر عبدالعزیز صدیقی ایڈوکیٹ

0
61

میں نےجب پہلی کار خریدی تو آنکھوں میں آنسو آگئے بیگم پوچھنے لگیں کیا ہو گیا کیوں رو رہے ہیں۔میں نے جواب دیا کہ ابا جی کی یاد آگئ ساری عمرانہوں نے بس میں ہی سفر کیا اور آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو دل کرتا ہے کہ خوشی کے اس لمحے میں وہ میرے ساتھ میری نئ کار میں میرےبرابر میں بیٹھے ہوتے کاش میں ان کو ان کی زندگی میں ہی کچھ آسودگی دے سکتا۔۔۔
دوستوں یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے بزرگ رتبے اور مرتبے میں ہم سے کہیں آگے تھے۔۔۔ لیکن ان کی زندگی میں کوئ خاطر خواہ آسائشیں نہی تھیں۔۔ میرے والد مرحوم جب ہجرت کر کےپاکستان آئےتو کلیم آفس میں کلیدی عہدے پر فائز ہوئے لیکن جلد ہی رشوت زدہ ماحول دیکھتے ہوئے انہیں نوکری چھوڑنی پڑی اور بعدازاں وکالت شروع کر دی۔۔۔گو کہ والد مرحوم شہر کراچی کی جانی پہچانی پڑھی لکھی سیاسی اور سماجی شخصیت اور نامور وکیل تھے لیکن نا جانے کیوں انہیں پیسوں سے سے کوئ شغف نہ تھا بلکہ ایسا لگتا تھا وہ پیسے سے نفرت کرتے ہیں۔ کہتے تھے "پیسہ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے” بیٹا جی "گھر میں اتنے کمرے نہیں ہونے چاہئے کہ سب ایکدوسرے کی شکل کو ترسیں”۔۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو آسائشوں بھری زندگی سے دور رکھا مجھ سے اکثر کہتے تھے کہ بیٹا میں مرنے کے بعد کچھ چھوڑ کے ہی نہیں جاونگا کہ تم بہن بھائ آپس میں لڑو اور ایسا ہی ہوا۔۔۔ اللہ کا بہت شکر ہے اس موضوع پر آج تک ہم بہن بھائیوں میں کوئ اختلاف نہیں ہوا اور انکو گزرےاکیس برس ہو چکے ہم بہن بھائیوں کی محبت وہسے ہی قائم ہے جیسے پہلے تھی۔انکی زندگی میں ہی میری شادی ہوئ اورانہیں اللہ تعالی نے اتنی سعادت مند بہو دی جس نے انکی بیماری کے زمانے میں انکی اتنی خدمت کی جس کی مثال نہیں ملتی۔۔وہ بہت خوددار انسان تھے ہمیشہ اپنا کام خود کیا کرتے تھے۔۔ میں چونکہ چار بہنوں کا اکلوتا بھائ تھا اور بہنوں کے لاڈ کی وجہ سے کوئ کام نہیں کرتا تھا ۔۔۔اکثر مجھے ڈانٹتے ہوئے کہتے تھے کہ بیٹا دنیا کا گھٹیا ترین شخص وہ ہے جو اپنا کام دوسروں سے کرائے۔۔
کیا وقت تھا نہ گاڑی نہ موٹر سائیکل لیکن سارے خاندان کی تقاریب میں بھی پیش پیش ہوتے تھے۔۔۔گھومتے پھرتے بھی تھے بلکہ جب مضافاتی علاقوں کے رشتہ داروں کے گھر جاتے تو رک بھی جاتے تھے، دوسرے دن واپسی ہوتی تھی۔۔ ایک اور بڑی دلچسپ بات تھی نہ کوئ موبائل اور نہ کوئ گوگل میپ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نئ جگہ نہ پہنچ پائے ہوں اور ہم کہیں گئے ہوں اور ویاں تالا لگا ہو۔۔
ویسے دوستوں غور کریں ۔۔ہم میں سے تقریبا نوے فیصد لوگ اپنے گزرے کل سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں، میں خوداگر اپنا چائزہ لوں تو یہ بات غلط نہی ہوگی کہ میں اپنےوالد سے بہتر زندگی گزار رہا ہوں۔ آپ بھی کسی دن تحقیق کر لیں آپ کو ملک کے بھکاری بھی اپنے والدین سے بہتر زندگی گزارتے ملیں گے‘ ان کے والدین سارا شہر مانگ کر صرف دس بیس روپے گھر لاتے تھے جب کہ کراچی اور لاہور کے بھکاری آج چھ سات ہزار روپے روزانہ کماتے ہیں۔
ہمارے گھر میں بچپن میں صرف پنکھے ہوتے تھے ائر کنڈیشن کاتو تصور بھی نہ تھا سارا بچپن چاچا برف والے سے برف خرید کر لاتے رہے ریفریجریٹر تو بہت بعد میں آیا۔۔۔ ریفریجریٹر آنے کے بعد فریزر میں برف زیادہ جمائ جاتی تھی کیونکہ ہمسائیوں کو بھی دی جاتی تھی۔۔۔۔ اچھا ایک بات اور تھی کہ ہمسایوں سے سالن مانگ لینا، شادی بیاہ کے لیے کپڑے اور جوتے ادھار لینا، پرانی کتابیں لے لینا معیوب نا تھا۔۔ہمارے تقریب اور گھرکے لیے جوتے اور کپڑے الگ رکھے ہوتے تھے۔۔۔دستر خوان پر دوسرا سالن عیاشی ہوتا تھا۔۔ سویٹ ڈش میں صرف زردہ اور شاہی ٹکڑے ہی بنتے تھے۔۔۔مرغی تو صرف بیماری کی حالت میں پکائی جاتی تھی وہ بھی لوکی ڈال کے اور بیمار بے چارے کوتو صرف اس کا شوربہ ہی مل پاتا تھا۔۔۔ہمارے پورے محلے میں ایک فون ہوتا تھا اور سب لوگوں نے اپنے رشتے داروں کو وہی نمبر دے رکھا تھا تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کا بچہ بلانے آتا رہتا تھا کہ آپ کا فون آیا ہے۔۔۔ہمارے گھر جب ٹیلی ویژن آیا تو اجتماعی طورپر دیکھا جاتا تھا اور محلے کہ "مستقل ناظرین” بچوں کے لئے ابا جی نے دری کا بھی اہتمام کروا دیا تھا۔۔۔ ہم سب کو نئے کپڑے اور نئے جوتے صرف عید پر ہی ملتے تھے۔۔۔مجھے یاد ہے کہ ابا جی نے ایک کباڑی سے پرانی تین پہئے والی سائیکل ٹھیک کروا کےدلادی تھی ہم اسے بھی روز چمکا کر بڑی حفاظت اور احتیاط سے رکھتے تھے۔۔پورے گھر میں ایک غسل خانہ اور ایک ہی ٹوائلٹ تھا اور اس کا دروازہ ہر وقت باہر سے بجتا رہتا تھا۔۔۔سردیوں میں پتیلے میں پانی گرم ہوتا تھا کوئ گیزر کا تصور نہیں تھا۔۔اسکول جاتے ہوئے باورچی خانے میں ہی بیٹھ کرامی جان کے ہاتھ کے دو کرکرے پراٹھےچائے سے کھاتے۔۔ کوئ مارجرین اور بریڈ نہیں تھی۔۔ کیا سادہ اور مطمئن خوش باش زندگی تھی ۔۔اب اتنی ترقی‘ اتنی خوش حالی اور رہن سہن میں اتنی تبدیلی کے باوجود ہم لوگ خوش کیوں نہیں ہیں؟
صرف اور صرف "ناشکری”۔۔ ہم بحیثیت قوم ہی "ناشکرے” ہو چکے ہیں۔۔۔ انسان جب شکر چھوڑ دیتا ہے تو پھر یہ ” بے اطمنانی” میں مبتلا ہو جاتا ہے اورپھر یہ بیماری مریض کا وہی حشر کرتی ہے جو اس وقت ہم سب کا ہو رہا ہے۔
یاد رکھیں ہم سب اپنے والدین اور اپنے بچپن سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم پانچ سو روپے سے پچاس لاکھ اور کروڑ تک پہنچ چکے ہیں لیکن خوش پھر بھی نہیں ہیں۔۔ اپنے حال کا ماضی سے موازنہ کرتے جائیں اپنے آج کے اثاثے اور زندگی کی نعمتیں شمار کریں اور پھر اللہ کا شکر ادا کریں ۔۔۔بار بار کریں۔۔ یقین جانیں ہمارا” شکر” ہماری زندگی بدل کے رکھ دے گا نہیں تو ہم ایک ادھوری، غیر مطمئن اور تسکین سے محروم زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔

@Azizsiddiqui100

Leave a reply