اللّٰہ کو راضی کرنے کا آسان اور انمول طریقہ تحریر : انجنیئیر مدثر حسین

انسان کو اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس کے زمہ عبادت کی زمہ داری دی ہے. اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا.
"ہم نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا.”
اگر غور کیا جائے تو اسی مقصد کے لیے اللہ رب العزت کے حضور بہت سے فرشتے بھی اس کام کے لیے منتخب ہیں اور اس کام کو انجام دے رہے ہیں.
ایک جماعت مسلسل قیام دوسری رکوع تو تیسری سجدے کا شرف حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کر رہی ہے.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے سر اشرف المخلوقات کا سہرا بھی سجا رکھا ہے. اور دیکھا جائے تو اوپر مذکورہ عبادت میں مشغول فرشتے بھی تو مخلوق ہی ہیں. تو پھر عبادت کے ساتھ ساتھ کونسی ایسی چیز انسان کے زمہ ہے جسے نبھایا جائے تو انسان اشرف المخلوقات کی صف میں شامل ہوتے ہیں.وہ انمول صفت احساس کی ہے دوسری مخلوقات میں اس صفت کو اس انداز میں ممتاز نہیں کیا گیا جس انداز میں انسان میں رکھا گیا ہے. انسان اور جانور میں فرق کرنے والی خصوصیت بھی یہی ہے.جانور زیادہ تر اپنی بقا آور ضرورت کی سوچ لیے ہوتا ہے. جبکہ انسان کو احساس اور ایثار کی دولت سے نوازا گیا ہے. اب سوال یہ ہے کہ کیا احساس کے لیے وسیع دولت لازمی ہے؟
بلکل نہیں احساس حقوق العباد کا ایسا رکن ہے جس میں ہر جگی دولت ضروری نہیں. بعض اوقات کسی کو آپکی اچھے گفتگو اس کے اعصابی دباؤ کو کم کر دیتی ہے. بعض اوقات آپ کی خوش اخلاقی اس کے لیے دردِ دوا بن جاتی ہے. کوئی شخص پریشان ہو اس کو اس کی ہریشانی سے نکال دینا بھی تو نیکی ہی ہے.
آئیے اس کو ایک شریعت کے اوراق سے دیکھتے ہیں.
ایک دن نبی کریم خاتم النبیںن محمدمصطفیٰﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مخاطب ہوے اور کہا کہ مانگو عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کیا مانگتی ہو. دریائے رحمت کو اس قدر جوش میں دیکھ کر اجازت طلب کی کہ میں اپنے والد محترم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ نا کر لوں؟ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اور اجازت دے دی. سوال حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے رکھا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی دانشوری سے سوال تجویز کیا کہ پوچھو کہ واقع معراج النبی میں جب اللہ سے ملاقات ہوئی تو اس وقت کچھ راز و نیاز کی باتیں ہوئیں ان میں سے کوئی ایک بات بتا دیں.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سوال لا کر آپ ﷺ کی بارگاہ میں رکھ دیا. حضور نبی کریم خاتم النبیںن محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسکراے اور جواب ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ میں سب سے زیادہ خوش اس شخصیت سے ہوتا ہوں جو کسی کے ٹوٹے ہوے دل کو جوڑے.وعدے کے عین مطابق جب سوال کا جواب لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جناب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچیں اور جواب سے آگاہ کیا تو جواب سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار مسکراے اور پھر رونے لگے. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ میں مسکریا اس لیے کہ کائنات کا مالک کسی بندے کے بظاہر اتنے چھوٹے سے عمل سے سب سے زیادہ راضی ہو جاتا ہے. لیکن رویا اس لیے کہ اگر کسی سے کسی کا دل ٹوٹ جاے تو رب العالمین کتنا ناراض ہو گا اس بد بخت انسان سے.
تو پتا چلا کہ حقوق العباد صریحاً کنجی _ رضا _ رب العالمین ہے.
خدارا اللہ کی رضا چاہتے ہیں تو حقوق العباد کے بظاہر اس معمولی لیکن انتہائی اہم پہلو کو نظر انداز مت کیجئے. اپنے مسلمان بھائیوں بہنوں سے اچھی گفتگو کیجیے اگر ممکن ہو تو ان کے مسائل کا حل تجویز کیجیے مخلوق کی اللہ کی رضا کے لئے خدمت کیجیے تا کہ اللہ ہم سے راضی ہو.

@EngrMuddsairH

Comments are closed.