لاہور :امّ المؤ منین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا !مسلمان خواتین کے لیے ماڈل ہیں، علامہ حقانی ، علامہ موسوی کی گفتگو

 

 

 

 

آج رمضان ٹرانسمشن میں علامہ عبدالشکورحقانی نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سیرت طیبہ کےمتعلق جامع گفتگو کی اور مناقب بیان کیے خدیجہ نام، امّ ہند کنیت اور طاہرہ لقب ہے۔حضرت خدیجہ کے والد خویلد بن اسد ایک کامیاب تاجر تھے اور نہ صرف اپنے قبیلے میں بڑی باعظمت شخصیت کے مالک تھے بلکہ اپنی خوش معاملگی اور دیانداری کی بدولت تمام قریش میں بیحد ہر دلعزیز اور محترم تھے۔

حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا عام الفیل سے پندرہ سال قبل سنہ 555 عیسوی میں پیدا ہوئیں، بچپن ہی سے نہایت نیک اور شریف الطبع تھیں، جب سن شعور کو پہنچیں تو ان کی شادی ابو ہالہ بن نباش (زرارہ) تمیمی سے ہوئی ، ابو ہالہ سے ان کے دو لڑکے ہوئے، ایک کا نام ہالہ تھا جو زمانہ جاہلیت ہی میں مر گیا دوسرے کا نام ہند تھا

 

آپ کا اسم مبارک خدیجہؓ، ام ہند کنیت اور طاہرہ لقب ہے۔ آپؓ کی والدہ محترمہ کا نام فاطمہ تھا، وہ لوی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر کی اولاد تھیں۔ آپؓ عام الفیل سے 15 سال قبل پیدا ہوئیں۔ حضرت خدیجۃ الکبریؓ کے والد خویلد بن اسد ایک کامیاب تاجر تھے اور نہ صرف اپنے قبیلے میں باعظمت شخصیت کے مالک تھے ،بلکہ اپنی خوش معاملگی و دیانت داری کی بدولت تمام قریش میں بے حد محترم اور ہر دلعزیز تھے ۔

حضرت خدیجہؓ سن شعور کو پہنچیں تو زمانہ جاہلیت کی آلودگیوں سے پاک اور ان تمام صفات حسنہ سے متصف تھیں، جو عورت کو مثالی بناتی ہیں۔ آپؓ کی عادات پاکیزہ، ذوق لطیف اور زندگی مطہر تھی،اسی لیے معاشرے میں ’’طاہرہ‘‘ کے لقب سے معروف تھیں۔ دولت کی فراوانی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت خدیجہؓ کو بہترین کاروباری ذوق اور صلاحتیں بھی عطا کی تھیں یہی وجہ ہے کہ آپؓ عرب کی بے حد مالدار اور کامیاب تاجرہ تھیں۔

 

 

 

مشہور ہے کہ اہل مکہ کا کاروان تجارت بیرون ملک جاتا تو اکیلا ان کا مال تجارت باقی تمام تاجروں کے سامان تجارت سے زیادہ ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سرکار دو عالمﷺ کی شہرت ’’صادق و امین‘‘ کے لقب سے تمام مکے میں پھیل چکی تھی اور آپﷺ کی راست بازی، سچائی و دیانت داری اور اخلاق کریمانہ کی عام شہرت تھی۔

 

 

 

چناں چہ حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کو پیغام بھیجا کہ ’’آپ میرا مال تجارت لے کر شام جائیں اس کے صلے میں تجارت کے منافع میں جتنا نفع اوروں کو دیتی ہوں، آپﷺ کو اس سے دوگنا ادا کروں گی، اگر آپﷺ اس کام میں ہماری معاونت فرمائیں، ہادی اعظمﷺ نے حضرت خدیجہؓ جنہوں نے آگے چل کر آنے والے ایام میں اولین مومنہ اور ام المومنین بننا تھا کا فعال شریک تجارت بننے کی پیشکش قبول کرلی اور حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ کے ہمراہ مال تجارت لے کر بصریٰ تشریف لے گئے اور یوں رحمۃ للعالمینﷺ کے مجسم برکت والے دست مبارک سے اللہ تعالیٰ نے جو تجارتی نفع اس بار کی تجارت میں عطا کیا اسے دیکھ کر حضرت خدیجہؓ کی خوشگوار حیرت کی کوئی انتہا نہ تھی اور اس پر میسرہ نے آپﷺ کی تجارتی حکمت عملی اور دیگر اوصاف حمیدہ کی بہت تعریف کی،

 

 

 

جس سے حضرت خدیجہؓ نہ صرف بے حد متاثر ہوئیں۔ چناںچہ اپنی ایک قریبی سہیلی کے ذریعے آپﷺ کے پاس پیغام بھیج کر نکاح کی درخواست کی، جسے سروردوعالمﷺ نے منظور فرمالیا۔ شادی کے وقت آپﷺ کی عمر مبارک 25سال اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی عمر 40سال تھی اور یہ بعثت نبوی سے پندرہ سال قبل کا واقعہ ہے۔

 

پندرہ برس بعد آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبوت عطا ہوئی۔ یہ عالم انسانیت کے لئے ایک حسین و منور اور مثالی معاشرے کی تشکیل، ہمہ گیر اور عظیم ترین انقلاب کی نوید تھا۔ حضرت خدیجہؓ نے لبیک کہتے ہوئے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ صحیح بخاری ’’باب بدألوحی‘‘ میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔

بعثت کے بعد حضور اکرمﷺ کی پیغمبرانہ جدوجہد کے ایک ایک مرحلے پر اس شادی کی برکتیں پوری آب و تاب کے ساتھ عیاں نظر آئیں۔ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے نہ صرف سب سے پہلے نبوت کی تصدیق کی، بلکہ دعوت اسلام میں آنحضرتﷺ کی سب سے بڑی معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔

ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے فرائض نبوی ادا کرنے چاہے تو کوہ حرا، وادی عرفات، جبل فاران غرض تمام جزیرۃ العرب آپﷺ کی آواز پر پیکر تصویر بنا ہوا تھا، لیکن اس عالمگیر خاموشی میں ایک آواز تھی جو فضائے مکہ میں تموج پیدا کررہی تھی اور یہ آواز حضرت خدیجہؓ کے قلب مبارک سے بلند ہوئی تھی جو اس ظلمت کدہ کفر میں انوار الٰہی کا دوسرا تجلی گاہ تھا۔

سن7 نبویؐ میں قریش مکہ   نے اسلام اور اسلامی تحریک کو ختم کرنے کے ارادے سے جب سوشل بائیکاٹ کی تدبیر پر عمل کیا تو خاندان بنو ہاشم کے تقریباً 75 افراد شعب ابی طالب میں محصور و مقید ہوگئے، اس سماجی اور معاشی مقاطعے میں نبی کریمﷺ اور آپﷺ کے خاندان کے ساتھ حضرت خدیجہؓ بھی قید رہیں، جس کی وجہ سے آپؓ کی صحت بے حد متاثر ہوئی۔ چناں چہ اس اذیت ناک اور صبر آزما سماجی مقاطعے (سوشل بائیکاٹ) جوکہ مسلسل تین سال جاری رہا کے خاتمے اور شعب ابی طالب سے نکلنے کے چند دن بعد رمضان المبارک 10نبوی ہجرت سے تین سال قبل آپﷺ کی دیرینہ ساتھی، خلوص و وفا کی پیکر رفیقہ حیات اپنے محبوب شوہر کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور چلی گئیں۔ رسول اللہﷺ خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کو داعی اجل کے سپرد کیا۔

ازواج مطہراتؓ میں حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کو بعض امتیازی خصوصیتیں حاصل ہیں۔ کتب احادیث میں حضرت خدیجہؓ کے فضائل و مناقب میں بہت سی احادیث مبارکہ مروی ہیں۔ حضرت خدیجہؓ کا اللہ تعالیٰ کے یہاں کیا مقام و مرتبہ تھا، اس کا اندازہ بخاری شریف کی اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ایک بار جبرائیل امین ؑنے سید المرسلینﷺ کے پاس آکر فرمایا ’’یارسول اللہﷺ حضرت خدیجہؓ آپ کے پاس پیالے میں کھانے کی کچھ چیز لے کر آنے والی ہیں، وہ آئیں تو انہیں اللہ کا اور میرا سلام کہئے‘‘۔

 

آنحضرتﷺ اور اسلام کو حضرت خدیجہؓ کی ذات سے جو تقویت تھی وہ سیرت نبویؐ کے ایک ایک صفحے سے نمایاں ہے۔ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ ’’وہ اسلام سے متعلق آنحضرتﷺ کی سچی مشیرہ کار تھیں‘‘۔ (ابن ہشام/ السیرۃ النبویہ)

حضرت خدیجہؓ اپنی دولت، اثر و رسوخ اور فہم و فراست سے کام لے کر مکی دور میں ہر نازک موقع پر اسلام کے لئے ڈھال بنی رہیں۔ علم و حکمت سے بھرپور فہم و فراست سے لبریز ایثار و قربانی کی پیکر، دکھ سکھ میں اپنے شوہر حضرت محمدﷺ کی معاون حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی حیات پاک مسلم خواتین کے لئے ایک مثالی اور قابل تقلید نمونہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہےکہ ہم آپؓ کے حالات زندگی کا بغور مطالعہ کریں اور دین و دنیا کی فلاح کے لئے ان کی اتباع کریں۔

https://www.youtube.com/watch?v=yD7xkMyBO54

 

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھی اولادیں دین۔ سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے جو کمسنی میں انتقال کر گئے۔ پھر زینب رضی اللہ عنہا، ان کے بعد عبداللہ، وہ بھی صغر سنی میں فوت ہو گئے ( ان کا لقب طیّب اور طاہر تھا)۔ پھر رقیّہ، پھر امّ کلثوم پھر فاطمہ الزّھرا رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے مناقب میں بہت سی احادیث مروی ہیں۔

علامہ سید حسنین موسوی نے اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’اللہ نے رسول خداؐ کو حضرت خدیجہ کے مال کے زریعے غنی کیا جو اپنی قوم میں اشراف اور مالدار تھیں جن سے رسول ؐ کا نکاح ہوا‘‘

علامہ سید حسنین موسوی نے بیان کیا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کو اللہ اپنا مال کہہ رہا ہے وہ خدیجہ جو مرسل اعظم ؐ کی شریکہ حیات بننے سے پہلے دور جاہلیت میں بھی طاہرہ اور سیدہ قریش کے لقب سے جانی جاتی تھیں۔ حضرت خدیجہ ہر طرح سے پاک و پاکیزہ اور طاہرہ و مطہرہ تھیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے تمام عرب کے امراء و رساء کی دعوت نامے ٹھکرا کر مکہ کی ایسی شخصیت سے نکاح کرنا پسند فرمایاجومادیت کے بجائے اخلاق کردار میں عظیم درجے پر فائز تھے ۔ان کے اس تاریخی اقدام سے دنیائے قریش میں زلزلہ برپا ہوگیا۔

 

 

 

ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری ٰ تاریخ اسلام میں ایک محور کی حیثیت رکھتی ہیں۔آپ عرب کے عالی نسب دانشور خاندان سے تعلق رکھتی تھیں آپ کا شجرہ نسب چار پشتوں کے بعد رسول خدا ؐ سے جا ملتا ہے ۔جس زمانے میں یمن کے بادشاہ ’تبع‘ نے حجر اسود کو اکھاڑ کر اپنے ساتھ یمن لے جانا چاہا توحضرت خدیجہ کے والد خویلد حجر اسود کے تحفظ کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے اور بادشاہ یمن اپنے ارادے پر عمل نہ کر سکا۔

حضرت خدیجہ کے جد اسد بن عبد العزی پیمان ’حلف الفضول ‘ کے نمایاں اراکین میں سے تھے یہ پیمان عرب کی اعلی کردار ہستیوں نے باندھا تھا کہ ہم مظلومین کی حمایت کریں گے اوربے آسرا لوگوں سے معاونت کریں گے ۔

حضرت خدیجہ کا کاروبار تجارت شام مصر حبشہ تک پھیلا ہوا تھا ہزاروں اونٹ آپ کے کارواں میں شامل تھے جب خدیجہؑ تک آنحضور کی صداقت و امانت اور اخلاق و کردار کی خبریں پہنچیں تو آپ نے یہ درخواست کی کہ تجارت کیلئے میرا مال حاضر ہے۔رسول خدا نے اس پیش کش کو قبول کیا اور انکے غلام میسرہ کیساتھ شام چلے گئے۔رسول ؐ کے اس اولین تجارتی سفر میں بے پناہ فائدہ ہوا۔ازاں بعد مختلف سفر تجارت پیش آتے رہے۔جب بھی حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ واپس آتا تو آپ کے اخلاقیات اور فضائل و مناقب بیان کرتا۔

 

 

وہ خدیجہ جن سے شادی کیلئے عرب کے رؤسا و سردار متمنی تھے انہوں نے اپنی شادی کیلئے دنیاوی نمود و نمائش سے دور مگر خلق عظیم کے حامل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتخاب کیا

حضرت خدیجہ نے حضور کو یہ پیغام بھیجا کہ ابن عم آپ سے قرابتداری اور آپ کی بلند کرداری کی وجہ سے آپ سے تزویج کرنا چاہتی ہوں ۔آپ نے یہ بات اپنے چچائوں سے نقل کی چنانچہ ایک وفد لے کر حضرت ابو طالب کی سرکردگی میں حضرت خدیجہ کے چچا عمر ابن اسد اور بعض روایات میں آپ کے والد خویلد کے گھر تشریف لے گئے ۔حضرت ابوطالب نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا کہ میرا بھتیجا عز و شرف میں پورے عرب سے بہتر ہے اور وہ خدیجہ کا خواستگار ہے اور خدیجہ بھی انکی جانب راغب ہیں جو حق مہر ہوگا وہ میں ادا کرونگا ۔اس کا مستقبل نہایت تابناک اور خدا کے نزدی اسکی بہت عزت ہے۔

Shares: