علامہ ضمیر اختر نقوی انتقال کر گئے
مایہ ناز مذہبی اسکالر علامہ ضمیر اختر نقوی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے، ان کی عمر 76 برس تھی۔
قریبی رفقاء کے مطابق علامہ ضمیر اختر نقوی کو رات گئے نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ انتقال کر گئے۔مرحوم علامہ ضمیر اختر نقوی کی میت کراچی کی انچولی امام بارگاہ منتقل کی جائے گی۔
علامہ ضمیر اختر نقوی 24 مارچ 1944ء کو بھارت کے شہر لکھنو میں پیدا ہوئے ، مرحوم ایک پاکستانی عالم، مذہبی رہنما، خطیب اور اردو شاعر کے طور پر جانے جانے تھے ۔ ان کے والد کا نام سید ظہیر حسن نقوی تھا جب کہ ان کی والدہ کا نام سیدہ محسنہ ظہیر نقوی تھا ، پیدائش کے وقت نام ظہیر رکھا گیا تھا ، 1967ء میں وہ نقل مکانی کر کے پاکستان آ گئے اور کراچی شہر میں سکونت اختیار کیے ، تعلیمی اعتبار سے وہ لکھنؤ کے حسین آباد اسکول سے میٹرک پاس کیے اور گورنمنٹ جوبلی کالج لکھنؤ سے انٹرمیڈیٹ مکمل کیے۔
انہیں گریجویشن کی سند شیعہ کالج لکھنؤ سے حاصل ہوئی ۔ مرحوم نے بے شمار کتابیں بھی لکھیں جن میں تاریخ مرثیہ نگاری میر انیس، زندگی اور شاعری ، مرزا دبیر حالاتِ زندگی اور شاعری ، جوش ملیح آبادی کے مرثیے ، شعرائے اردو اور عشق علی ، اردو مرثیہ پاکستان میں(1982ء) ، خاندان میرانیس کے نامور شعرا ، اردو ادب پر واقع کربلا کے اثرات ، دبستان ناسخ ، تذکرہ شعرائے لکھنؤ ، اقبال کا فلسفہ عشق ، شعرائے اردو کی ہندی شاعری، ابن صفی کی ناول نگاری ، شعرائے مصطفی آباد ، میر انیس (ہر صدی کا شاعر) ، میر انیس کی شاعری میں رنگوں کا استعمال ، میرانیس بحیثیت ماہرِ علمِ حیوانات ، نوادرات مرثیہ نگاری(دو جلدیں) ، The Study of Elegies Mir Anis ، اردو غزل اور کربلا سمیت کئی درجنوںکتب تریر کیں . ان کا اردو ادب میں گراں قدر حصہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا.