رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے ،اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کراللہ کوراضی کرلیں ، علامہ عبدالشکورحقانی ،علامہ سید حسنین موسوی کی گفتگو

0
108

لاہور :رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے ،اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کراللہ کوراضی کرلیں ، علامہ عبدالشکورحقانی ،علامہ سید حسنین موسوی کی گفتگو،باغی ٹی وی کے مطابق رمضان ٹرانسمیشن میں وعظ ونصیحت کا سلسلہ جاری ہے اور آج علامہ عبدالشکورحقنی اورعلامہ سید حسنین موسوی نے رمضان کے دوسرے عشرے کے حوالے سے اہم گفتگو کی ،

علامہ حقانی نے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ رمضان المبارک کا عظیم الشان پہلا عشرہ جہاں اپنی رحمتوں سے بنی آدم کو ڈھانپ کر ختم ہوتا ہے، وہیں دوسرا عظیم الشان عشرہ دستک دیتا ہے۔ دوسرا عشرہ، اپنے اندر پہلے عشرے سے زیادہ اجر و ثواب سموئے ہوتا ہے۔ پہلے عشرۂ مبارک میں اﷲ رب العزت ہر اس روزہ دار کو جو خاص رضائے الٰہی کے لیے روزے کا پورا حق ادا کرتے ہوئے روزہ رکھتا ہے۔

ایسے شخص پر اﷲ تعالیٰ اپنی خاص رحمت نازل کرتا ہے۔ رب العالمین عام مہینوں سے زیادہ اس ماہ مبارک میں اپنی خاص رحمتیں نازل کرتا ہے۔ یہ رحمتیں مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں۔ عشرۂ رحمت کے بعد عشرۂ مغفرت شروع ہوتا ہے۔ ان رحمتوں پر مسلمان اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کریں، وہ کم ہے۔ اگر ساری زندگی بھی اس سجدۂ شکر سے سر نہ اٹھائیں تو بھی اس نعمت عظیم کا شکر ادا نہیں ہوسکتا۔ اﷲ رب العزت اس عشرے میں مسلمان روزہ داروں کو اپنی مغفرت سے نوازتا ہے جو ان کی زندگی کی سب سے بڑی کام یابی ہے ۔

اﷲ جل جلالہ اس کے تمام پچھلے گناہوں سے اس کی مغفرت فرما دیتے ہیں، اور یہ ازالہ اس کے صغیرہ گناہوں کا ہوتا ہے، اس کے کبیرہ گناہوں کے لیے توبہ شرط ہے۔ اگر کوئی مسلمان عشرۂ ثانیہ میں اپنے پچھلے تمام کبیرہ گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلے تو اﷲ تعالیٰ اس کے صغیرہ گناہ روزے کی برکت سے معاف فرمادے گا اور وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہوجائے گا جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی ابھی جنم دیا ہو۔ اﷲ رب العزت کی ذات سے امید ہے کہ وہ تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں کو حسنات سے بدل دے گا۔ جس کسی کو اﷲ تعالیٰ کی مغفرت مل گئی۔

اسے سب کچھ مل گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں حشر کے میدان میں اس کے گناہوں کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جائے گا اور نہ ہی اس کے گناہ سب کے سامنے بیان کیے جائیں گے۔ میزان عمل میں ان کی نیکیوں کا پلڑا بھاری اور وزنی ہوگا اور وہ یوم الدین کی ہولناکی سے محفوظ ہوگا۔ اس مبارک عشرے میں غفور الرحیم ارشاد فرماتا ہے:’’ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا جسے میں عطا کروں؟ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا جسے میں معاف کروں؟‘‘
ایسا اس ماہ مبارک کے دوسرے عشرے کی ہر رات میں ہوتا ہے۔

اﷲ رب العالمین کو معافی بہت پسند ہے۔ جب کوئی بندہ گناہ کرتا ہے اور اسے اس پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے تو وہ معافی مانگنے کے لیے دعا کرتا ہے۔ ابھی اس نے صرف ’’یا اﷲ‘‘ ہی کہا ہوتا ہے کہ اﷲ کی رحمت اور اس کی صفت غفور جوش میں آتی ہے، اور ارشاد ہوتا ہے:’’جا، میں نے تجھے معاف کیا۔‘‘ سبحان اﷲ! اﷲ کی شان تو دیکھیے کہ بندے نے صرف معافی کے لیے ’’اﷲ‘‘ کہا، اور ابھی پوری دعا مکمل بھی نہیں ہوئی کہ اﷲ نے اس کی مغفرت فرمادی۔

رب ذوالجلال والاکرام تو اپنے بندوں کو معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ جب کسی بندے سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ رحیم و کریم اسے مہلت دیتا ہے کہ شاید اب بھی یہ مجھ سے معافی مانگ لے، شاید اب بھی یہ میری طرف رجوع کرلے۔
حدیث نبویؐ ہے کہ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو آسمان اﷲ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے:’’اے اﷲ! تو مجھے اجازت دے کہ میں اس پر ٹوٹ پڑوں۔‘‘

زمین کہتی ہے:’’اے اﷲ، تو مجھے اجازت دے کہ میں اسے اپنے اندر دھنسالوں۔‘‘
اس موقع پر مالک الملک کا ارشاد ہوتا ہے:’’اگر یہ تمہاری مخلوق ہے اور تم اس کے خالق ہو تو تمہیں اجازت ہے۔ اور اگر یہ میرے بندے ہیں اور میں ان کا خالق ہوں تو میرے بندے کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو۔ میں اس بات کا انتظار کروں گا کہ یہ مجھ سے رجوع کرلے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے۔‘‘

بے شک! یہ ہمارا رب ہی ہے جو ہمارے پکارنے اور یاد کرنے پر نہ صرف لبیک کہتا ہے، بلکہ ہر معافی چاہنے والے کے گناہ بھی فرمادیتا ہے۔ افسوس ہے ہم پر کہ ہم اس مبارک عشرے کو پائیں اور اس میں ہماری مغفرت نہ ہو۔
رمضان کے دوسرے عشرے میں جو کہ عشرۂ مغفرت کے نام سے موسوم ہے، استغفار کی کثرت کرنی چاہیے۔ صبح و شام اﷲ رب العزت سے اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوکر معافی مانگنی چاہیے۔ اس سے ہمارا رب تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے اور ہماری مغفرت فرمادیتا ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے، پھر وہ اس پر شرمندہ ہوکر اﷲ سے معافی مانگتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو اﷲ رب العزت اس کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ پھر وہ شخص وہی گناہ دوبارہ کرتا ہے تو توبہ ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر وہ اپنے گناہ پر شرمندہ ہوتا ہے اور اﷲ سے ایک بار پھر معافی طلب کرتا ہے تو اﷲ پاک اسے پھر اس کے گناہ سے سبک دوش کردیتا ہے۔ وہ پھر وہی گناہ کرتا ہے اور اس بار بھی اس کی توبہ ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ پھر اﷲ سے معافی طلب کرتا ہے اور رب کریم نہ صرف اس کی پھر مغفرت فرمادیتا ہے، بلکہ یہ بھی ارشاد فرماتا ہے:’’جا، میں نے تجھے معاف کیا، اب تو جو چاہے کر، تجھ پر گناہ نہیں۔‘‘

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے وہ گناہ کرنے کی اجازت دے دی ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب جب گناہ کرتا رہے گا اور سچے دل سے اس پر شرمندہ ہوکر اﷲ رحمن و رحیم سے مغفرت طلب کرتا رہے گا، اﷲ اس کے گناہوں سے اسے پاک کرتا رہے گا۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے:’’تم اتنے اتنے گناہ لے کر آئو کہ تمہارے گناہ زمین کو بھردیں اور بھرتے بھرتے ساتوں آسمان کو بھردیں، میں اتنی اتنی یعنی اس سے کئی گنا زیادہ مغفرت لے کر آئوں گا۔‘‘
اﷲ پاک اپنے بندے کے رجوع کرنے کا منتظر رہتا ہے کہ وہ چاہے اتنے زیادہ گناہ کرلے کہ اس کے گناہ زمین و آسمان کو ڈھانپ دیں تب بھی وہ رحمن اور رحیم اسے معاف کردے گا۔

رب ذوالجلال و الاکرام کا ارشاد ہے:’’تم گناہ کرتے کرتے تھک جائوگے، میں معاف کرتے کرتے نہیں تھکوں گا۔‘‘
اس سے اﷲ کو اپنی رحمت بتانا مقصود ہے کہ میں معاف کرتے کرتے کبھی نہیں تھکوں گا، اگرچہ تم ہی گناہ کرکرکے عاجز آجائوگے۔ یہ اﷲ پاک ہی ہے جو اپنی رحمت اور مغفرت سے ہم پر احسان کیے ہوئے ہے، ورنہ ہم نے تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

 

 

علامہ سید حسنین موسوی نے رمضان المبارک کے دوسرے عشرہ مغفرت کے حوالے سے اہم گفتگو کرتے ہوئے بیان کیا کہ

رمضان کا دوسرا عشرہ بڑی برکات کا حامل ہے، اس کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ یہ عشرہ ہمارے لیے بہت قیمتی ہے جس میں ہم اپنے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معافی مانگ کر اﷲ کے حضور پاک و صاف پیش ہوسکتے ہیں۔

ماہِ رمضان المبارک کا پہلاعشرہ، عشرئہ رحمت ہم سے جدا ہوا۔ اب دوسرا عشرہ، عشرئہ ’’بخشش و مغفرت‘‘ اپنی تمام تر فیوض و برکات، رحمت و مغفرت کےساتھ سایہ فگن ہے۔ آئیے، اب مغفرت کے اس دوسرے عشرے میں شب کی تنہائیوں میں اشک ندامت بہا کر اپنے گناہوں پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے توبہ و استغفار کریں اور اپنے رب کو راضی کرلیں کہ کون جانے، اگلے سال برکتوں والا یہ مہینہ، رحمت، مغفرت اور نجات کے یہ عشرے میسربھی آتے ہیں یا نہیں؟ ماہِ صیام کے دوسرے عشرے میں ہمیں اپنی ،اپنے والدین اور جملہ اہلِ ایمان کی بخشش و مغفرت کے لیے پہلے سے زیادہ خشوع و خضوع سے دعائیں، التجائیں کرنی ہیں۔ حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ جبرائیلِ امین میرے پاس آئے اور جب میں نے منبر کے پہلے درجے پر قدم رکھا، تو انہوں نے کہا کہ ہلاک ہو جائے، وہ شخص، جس نے رمضان المبار ک کا مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔ میں نے ا ُس پر آمین کہا ۔‘‘ (الترغیب والترہیب)

رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں جو سب سے اہم واقعہ پیش آیا، وہ حق و باطل کے درمیان ایک عظیم معرکہ تھا،جو بدر کے مقام پر پیش آیا اور جس نے مجموعی طور پر مسلمانوں کے حالات پر بڑے مثبت اثرات مرتب کیے۔ ایک طرف انہیں سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی برتری نصیب ہوئی، دوسری طرف ان کی بہادری، شجاعت اور جواں مردی نے مدینے اور اس کے آس پاس موجود یہودی اور عیسائی قبائل کی شورشوں کو بھی دبادیا۔ اس کے ساتھ ہی ابو جہل سمیت نام ور روسائے قریش اور سردار اسلامی تیغِ جہاد کا لقمہ بن کر عبرت کا نشان بن گئے اور کفارِ مکّہ کا غرور و تکبّر خاک میں مل گیا۔ کفرواسلام کی اس پہلی باقاعدہ جنگ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن نے اس فتح عظیم کو ’’یوم فرقان‘‘ کے نام سے یاد کیا اور اللہ نے قرآن کی ایک سورت، سورۃ الانفال میں غزوئہ بدر کے واقعے کی تفصیل بیان کرکے اسے تمام غزوات میں امتیازی درجہ عطا فرمایا۔

مغفرت کے معنی گناہوں کی بخشش ہے گویا جب اللہ تعالیٰ کسی گنہگار کو پہلے دس دنوں کی رحمت کے بہانے سے اپنے دروازے پر آنے کی اجازت دے دیتے ہیں اس کی نظر کرم کا وہ بندہ مرکز بن جاتا ہے اس سایہ شفقت میں پناہ لے کر کچھ یاد اللہ شروع کر دیتا ہے اور اس کی رحمت کو جوش آتا ہے اور جوش رحمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ار صبح کا بھولا شام کو گھر آگیا ہے تو بھولا نہ کہیں۔ اس کو پچھلی خطائوں سے درگز فرمائیں، سو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف رفما دیتے ہیں گویا پچھلا نامہ سیاہ قلم زد ہوا اور یہ بھی صرف رمضان المبارک کی کرشمہ سازی ہے کہ اس کے ہر دن، ہر رات اور ہر ہر ساعت کے کچھ اپنے انوار ہیں جن سے ہر صاحب دل فیضیات ہوتا ہے یہ فضیلت بھی رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے کے حصہ میں نہ آئی۔

Leave a reply