حضرت موسٰی اور خضر علیہما السلام کا واقعہ حکمت ودانائی اورصبروضبط کا بہترین درس ہے ،علامہ حقانی ،علامہ موسوی کی گفتگو

0
159

لاہور: حضرت موسٰی اور خضر علیہما السلام کا واقعہ حکمت ودانائی اورصبروضبط کا بہترین درس ہے ،علامہ حقانی ،علامہ موسوی کی گفتگو،اطلاعات کے مطابق رمضان ٹرانسمیشن کے دوران درس قرآن اورسوال وجواب کا سلسلہ جاری ہے

 

 

آج سولہویں پارے کے اہم موضوعات بیان کرتے ہوئے علامہ عبدالشکورحقانی نے سولہویں پارے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حضرت موسٰی اور خضر علیہما السلام کا قصہ (جو پندرھویں پارے کے آخر میں شروع ہوکر سولھویں پارے کے شروع میں ختم ہورہا ہے)حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ کی طرف سے یہ اطلاع ہوئی کہ سمندر کے کنارے ایک ایسے صاحب رہتے ہیں جن کے پاس ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں تو آپ ان کی تلاش میں چل پڑے، چلتے چلتے آپ سمندر کے کنارے پہنچ گئے، یہاں آپ کی ملاقات حضرت خضر علیہ السلام سے ہوئی اور آپ نے ان سے ساتھ رہنے کی اجازت مانگی،

انھوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ کوئی سوال نہیں کریں گے، پھر تین عجیب واقعات پیش آئے، پہلے واقعے میں حضرت خضر علیہ السلام نے اس کشتی کے تختے کو توڑ ڈالا جس کے مالکان نے انھیں کرایہ لیے بغیر بٹھالیا تھا، دوسرے واقعے میں ایک معصوم بچے کو قتل کردیا، تیسرے واقعے میں ایک ایسے گاؤں میں گرتی ہوئی بوسیدہ دیوار کی تعمیر شروع کردی جس گاؤں والوں نے انھیں کھانا تک کھلانے سے انکار کردیا تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام تینوں مواقع پر خاموش نہ رہ سکے اور پوچھ بیٹھے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تیسرے سوال کے بعد حضرت خضر علیہ السلام نے جدائی کا اعلان کردیا کہ اب آپ میرے ساتھ نہیں چل سکتے، البتہ تینوں واقعات کی اصل حقیقت انھوں نے آپ کے سامنے بیان کردی، فرمایا کشتی کا تختہ اس لیے توڑا تھا کیونکہ آگے ایک ظالم بادشاہ کے کارندے کھڑے تھے جو ہر سالم اور نئی کشتی زبردستی چھین رہے تھے، جب میں نے اسے عیب دار کردیا تو یہ اس ظالم کے قبضے میں جانے سے بچ گئی،

یوں ان غریبوں کا ذریعۂ معاش محفوظ رہا۔ بچے کو اس لیے قتل کیا کیونکہ یہ بڑا ہوکر والدین کے لیے بہت بڑا فتنہ بن سکتا تھا ، جس کی وجہ سے ممکن تھا وہ انھیں کفر کی نجاست میں مبتلا کردیتا، اس لیے اللہ نے اسے مارنے کا اور اس کے بدلے انھیں باکردار اور محبت و اطاعت کرنے والی اولاد دینے کا فیصلہ فرمایا۔ گرتی ہوئی دیوار اس لیے تعمیر کی کیونکہ وہ دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی، ان کے والد اللہ کے نیک بندے تھے، دیوار کے نیچے خزانہ پوشیدہ تھا، اگر وہ دیوار گر جاتی تو لوگ خزانہ لوٹ لیتے اور نیک باپ کے یہ دو یتیم بچے اس سے محروم ہوجاتے، ہم نے اس دیوار کو تعمیر کردیا تاکہ جوان ہونے کے بعد وہ اس خزانے کو نکال کر اپنے کام میں لاسکیں۔

 

 

علامہ سید حسنین موسوی نے تفسیر بیان کرتےہوئے کہا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا : جن اَسرار کا آپ کو علم نہیں ‘اُن کے بارے میں آپ صبرنہیں کرپائیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ”انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے ‘‘۔حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: ” آپ میری پیروی کرتے ہوئے میرے کسی فعل کے بارے میں سوال نہیں کریں گے ‘ تاوقتیکہ میں خود آپ کو بتادوں ‘‘چلتے چلتے وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو‘ حضرت خضر علیہ السلام نے اُس کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : ” یہ تو آپ نے بہت بری بات کی ‘اس سے تو سواریوں کے ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہوسکتاہے ‘‘۔حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: میں نے آپ سے یہی تو کہاتھاکہ آپ صبر نہیں کرپائیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : میری بھول پر میری گرفت نہ کیجئے اور میرے مشن کو مجھ پر دشوار نہ کیجئے ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جو حالات اس سورت میں بیان کیے گئے ہیں ان کو ذہن نشین کرنے کے لیے چند عنوانات قائم کیے جاسکتے ہیں، یعنی باری تعالیٰ کے ساتھ شرفِ ہم کلامی ، دریا میں ڈالا جانا، تابوت کا فرعون کو ملنا، پوری عزت اور احترام کے ساتھ رضاعت کے لیے لیے حقیقی والدہ کی طرف آپ کو لوٹا دینا، آپ سے ایک قبطی کا قتل ہونا لیکن اللہ کا آپ کو قصاص سے نجات دلانا، آپ کا کئی سال مدین میں رہنا، اللہ کی طرف سے آپ کو اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم، فرعون کے ساتھ موعظہ حسنہ کے اصول کے تحت مباحثہ، اس کا مقابلے کے لیے جادوگروں کو جمع کرنا،

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فتح، ساحروں کا قبولِ ایمان، راتوں رات بنی اسرائیل کا اللہ کے نبی کی قیادت میں مصر سے خروج، فرعون کا مع لاؤ لشکر تعاقب اور ہلاکت ، اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں بنی اسرائیل کا ناشکراپن ، سامری کا بچھڑا بنانا اور اسرائیلیوں کی ضلالت، تورات لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طور سے واپسی اور اپنے بھائی پر غصے کا اظہار ، حضرت ہارون علیہ السلام کا وضاحت کرنا وغیرہ۔

سورۂ کہف کی اس واقعہ سے متعلق آیات میں بتایا: راہ چلتے اُن دونوں کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی اور حضرت خضر علیہ السلام نے اُس لڑکے کوقتل کردیا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : ”آپ نے ایک بے قصور شخص کوقتل کردیا‘آپ نے یہ بہت براکام کیا‘‘۔حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: ”میں نے تو آپ سے کہاتھاکہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے ‘‘۔موسیٰ علیہ السلام نے کہا :اس کے بعد میں اگر آپ سے کوئی سوال کروں ‘تو مجھے ساتھ نہ رکھئے گا۔ پھر چلتے چلتے ایک بستی والوں کے پاس آئے ‘انہوں نے اُن سے کھانا مانگا ‘تو اُنہوں نے میزبانی نہ کی ‘اس کے باوجود اُس گاؤں کی ایک دیوار گراچاہتی تھی ‘ حضرت خضر علیہ السلام نے اُسے ٹھیک کردیا ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ان بے لحاظ لوگوں سے آپ نے مزدوری ہی لے لی ہوتی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا : اب آپ کے اور میرے راستے جداہیں‘ میں اپنے تینوں کاموں کی حکمت آپ کو بتا دیتا ہوں :

(1) کشتی سمندر میں کام کرنے والے مسکین لڑکوں کی تھی اور آگے ایک ظالم بادشاہ تھا‘جو ہر صحیح وسالم کشتی کو زبردستی لے لیتاتھا ‘ میں نے اُس کشتی کو عیب دار کردیا‘ تاکہ اُس کی دست برد سے بچی رہے ۔

(2)لڑکے کے ماں باپ مومن تھے اوراندیشہ تھاکہ یہ بڑے ہوکر اُن کو سرکشی اورکفر میں مبتلا کردے گا ۔اور اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُن کو ایک پاکیزہ اور زیادہ رحم دل بیٹا عطافرمائے گا ۔

(3)گاؤں میں دیوار دویتیم لڑکوں کی تھی اور اُس کے نیچے اُن کا خزانہ دفن تھا اور اُن دونوں کا باپ ایک صالح شخص تھا ‘توآپ کے رب نے چاہاکہ وہ جوان ہو کر اپنے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکالیں ۔یہ تینوں کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کئے ‘ یعنی یہ اللہ کا حکم تھا‘ لیکن آپ صبر نہ کرسکے اور جلد بازی میں سوال کربیٹھے۔ آیت83سے ذوالقرنین کا ذکر ہے ‘ اللہ نے انہیں زمین میں اقتدار عطا کیا ‘ وہ ایک مہم پر نکلے اور طلوعِ آفتاب کی جگہ پہنچے تو ایک قوم کو پایا ‘ جن پر سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا‘ پھر ایک اور مہم پہ نکلے اور دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے ‘ ان پہاڑوں کے اس پار ایک قوم تھی جو کوئی بات نہیں سمجھتی تھی ۔

انہوں نے کہا : اے ذوالقرنین! یاجوج وماجوج زمین میں فساد کررہے ہیں‘ ہم آپ کو کچھ سامان مہیا کرتے ہیں آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دیں۔ ذوالقرنین نے کہا: اللہ نے مجھے طاقت دی ہے اور میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنادوں گا۔ اس دیوار میں لوہا اور تانبا بھی پگھلا کر ڈالا گیا‘ تاکہ وہ دیوار ناقابلِ شکست ہوجائے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے رب کی رحمت سے بنی ہے اور جب میرے رب کا مقررہ وقت آئے گا‘ تو وہ اس دیوار کو ریزہ ریزہ کردے گا۔ آخری آیات میں اللہ نے فرمایا کہ اگر سارے سمندر‘ اور ان جیسے اور بھی آجائیں ‘ مل کر روشنائی بن جائیں تو میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجائیں گے۔

Leave a reply