موٹروے پر کل حادثات کے ساتھ ساتھ ایک چیزبھی دیکھی ہے جوبڑی قابل غورہے:ایک مسافرکی دکھ بھری کہانی

0
122

مظفرگڑھ :موٹروے پر کل حادثات کے ساتھ ساتھ ایک چیزبھی دیکھی ہے جوبڑی قابل غورہے:ایک مسافرکی دکھ بھری کہانی،اطلاعات کے مطابق سخت سردی اوردندھ کی وجہ سے موٹروے پرحادثات معمول بن گئے ہیں ،

ان حادثات کے دوران انسان کوکچھ چیزیں سیکھنے کے لیے بھی ملتی ہیں، یہاں‌ یہ کچھ گزارشات وزیراعظم اورریاست کے دیگرذمہ داران کے گوش گزارکرتا ہوں‌،

 

پہلے جوموٹروے پرہوا اس سے متعلق سنیئے ! دو روز قبل دوستوں کے ساتھ لاہور سے مظفرگڑھ کے لئے نکلا، موٹروے ہیلپ لائن پر معلومات لینے کے لیے کال کی، پتہ چلا دھند نہیں ہے اور موٹروے ایم تھری جس سے میں سفر کرنا تھا وہ کھلی ہے۔ شام 6 بج کر 40 منٹ پر لاہور سے نکلے۔ 8 بجے سے کچھ لمحے قبل شرق پور انٹرچینج سے 1 ڈیڑھ کلومیٹر پیچھے اچانک دھند آگئی،

ڈرائیو کرنے والے دوست نے فوری بریک لگائی،آگے کچھ گاڑیاں ٹکرا چکی تھیں۔ بمشکل گاڑی کو اگلی گاڑی میں ٹکرانے سے بچا لیا، لیکن اسی دوران ہماری گاڑی کو پیچھے سے آنے والی گاڑی نے ہٹ کردیا اور جا کر دوسری گاڑی میں ٹکرا گئی۔ ظاہر ہے ماضی میں موٹروے کی کچھ ایسی وڈیوز دیکھ رکھی تھیں تو فوری طور پر گاڑی چھوڑ دی اور ایک سائیڈ پر چلے گئے۔

اسی لمحے ہم سے 20 میٹر پیچھے متعدد گاڑیاں ٹکرا چکیں تھیں، ہمیں لگا کہ گاڑی نکالی جا سکتی ہے، سو فوری طور پر راستہ بنایا اور گاڑی اس جائے حادثہ سے نکال لی۔ جس کے بعد دوسری گاڑیوں کے متاثرین کی مدد کرنا شروع کی اور لوگوں کو بتانے میں لگ گئے کہ گاڑیاں چھوڑتے جائیں اور ایک طرف آتے جائیں کیونکہ شدید دھند اور رات کے اندھیرے کے باعث تیز رفتار گاڑیاں آرہی تھیں اور پہلے سے موجود گاڑیوں میں ٹکرائے جا رہی تھیں۔

 

 

یہ قیامت خیز منظر تھا۔ ہم بلکل محفوظ تھے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ اس پورے حادثے میں بس ہم لوگ ہی محفوظ تھے جنہیں اللہ کا شکر کوئی خراش تک نہیں آئی اور گاڑی بھی بڑے نقصان سے پچ گئی۔ مگر ہم کچھ کر نہیں پارہے تھے۔ میں نے موٹروے ہیلپ لائن پر کال کی تو کال نہیں ہورہی تھی۔ ترجمان موٹرویز کو کال کی اور انہیں اس حادثے سے متعلق آگاہ کیا۔ لوکیشن بھی بھیج دی۔

اس دوران فیصل موورز اور ایک دوسری بس بھی کاروں سے ٹکرا چکی تھی۔ گاڑیاں الٹ رہی تھیں، لوگ پھنسے ہوئے تھے ہیلپ لائن کام نہیں کر رہی تھی۔ فیصلہ کیا کہ گاڑی میں بیٹھنا ہوگا اور یہاں سے نکل کر کچھ کرنا ہوگا، سو آگے انٹرچینج کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ ایک دوست گاڑی چلا رہا تھا اور باقی ہم سب گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگتے رہے۔۔۔ دوسری طرف موٹروے پولیس کی گاڑی دکھائی دی تو انہیں آوازیں دے کر اپنی طرف بلایا، اہلکاروں کو اس واقعہ سے آگاہ کیا ۔۔

جنہوں نے جائے حادثہ سے کچھ پیچھے جا کر گاڑی سے نکل کر لوگوں کو روکنا شروع کیا اور مزید گاڑیوں کو حادثے کا شکار ہونے سے بچایا۔ لیکن یہاں پر کچھ افسوسناک پہلوؤں سے متعلق بتانا چاہوں گا۔ ٹھیک 10منٹ گزر جانے کے بعد ہیلپ لائن پر رابطہ ہوا۔ انہیں حادثے سے اپ ڈیٹ کیا۔ اس وقت تک یعنی لگ بھگ 20 منٹ گزر جانے کے بعد یہ سب ان کے علم میں نہیں تھا۔ حالانکہ ہم موٹروے پر موجود موٹروے پولیس کی ایک گاڑی کو اطلاع کر چکے تھے۔ اس دوران وہاں پر قیامت خیز منظر بھی جاری تھا۔ لگ بھگ 100 سے زائد گاڑیاں آپس میں ٹکرا چکی تھیں۔۔جسے بعد میں 12 سے 14 گاڑیاں بتایا گیا۔ جھوٹ بولا گیا۔

 

 

ہمارے سامنے حکومت، انتظامیہ اور موٹروے پولیس کی کارکردگی کھل کر آچکی تھی۔ حیران تھے کہ جب ایک ترجمان کے علاوہ ایک موبائل کو خود جا کر بتا چکے ہیں اسکے باوجود کوارڈینیشن کا یہ عالم ہے کہ سینٹرز میں اس قدر بڑے حادثے کی اطلاع ہی نہیں ہے۔ حد افسوس یہ کہ جائے حادثہ پر ایمبولینس بھی تقریبآ 1 گھنٹے بعد پہنچی۔ آخری اطلاع تک اس افسوسناک حادثے کے سبب 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ ایک درجن سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ المناک حادثے کی تصاویر پوسٹ کر رہا ہوں،جو اگلی صبح بنائیں۔

اب میں آتا ہوں اپنے اس خاص موضوع کی طرف جس مشاہدے میں آئیں

میں وہاں دیکھتا ہوں کہ جوبھی گاڑی دوسری گاڑی کوچھوتی وہ ایسے بیٹھ جاتی یا اس کی باڈی اس طرح چپک جاتی کہ جیسے یہ کاغذ کی بنی ہوئی گاڑیاں ہیں

میں وزیراعظم عمران خان اوردوسرے اداروں سے کوآگاہ کررہاہوں ، لاکھوں روپے مالیت کی گاڑیاں آخر ٹین ڈبے اور پلاسٹک سے کیوں بنائی جاتی ہیں۔ آخر لوگوں کی زندگیوں سے کیوں کھیلا جاتا ہے،

کیا کوئی اربوں ڈالر کمانے والی ان کمپنیوں سے پوچھنے والا نہیں کہ گاڑیوں کے نام پر بیچ کیا رہے ہو؟ یہ کیا میٹیریل لگایا جا رہا ہے؟ گاڑیوں میں ائیر بیگز تک نہیں ہیں۔ روانہ کی بنیاد پر درجنوں لوگ اسی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔۔خدارا آواز اٹھائیں اور ایوان اقتدار میں بیٹھے پیسے کی ہوس سے چور ذمہ داران کو جگائیں۔

Leave a reply