امریکہ کے لئے نیا امتحان۔ تحریر:عفیفہ راؤ

0
55

انڈیا کے لیے اس وقت عالمی سطح پرجو چیز سب سے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے وہ اس کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دو بڑے ممالک امریکہ اور روس کے درمیان بدلتے رشتوں میں توازن قائم رکھنا ہے۔ ساتھ ہی اس وقت امریکہ کے لئے بھی امتحان ہے کہ وہ روس سے دفاعی نظام خریدنے پر کیا انڈیا کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے گا جو اس نے باقی ممالک کے ساتھ کیا۔ انڈیا کے یہ دونوں دوست یعنی امریکہ اور روس ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں۔ دونوں اکثروبیشتر ایک دوسرے پر کئی الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔لیکن اس وقت یہ تعلقات ڈسکس کرنے کی وجہ حال ہی میں روس کے صدر پیوٹن کا چند گھنٹوں کا کیا گیا انڈیا کا دورہ ہے جس میں اس نے مودی سے ملاقات کی اور مختلف معاہدوں ہر دستخط بھی کئے۔ صدر پیوٹن اور وزیراعظم مودی نے
2019 کے بعد پہلی مرتبہ نئی دہلی میں براہ راست ملاقات کی ہے۔ کورونا کے بعد روسی صدر کا یہ دوسرا غیرملکی دورہ ہے۔ اس سے پہلے پیوٹن نے جنیوا میں صرف امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ ایک ملاقات کی تھی۔ ورنہ اس سال ہونے والے کئی اہم ایونٹس میں بھی یا تو پیوٹن نے شرکت سے معذرت کی تھی یا پھر ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی جاتی رہی ہے۔جس بات پر انڈین میڈیا بہت خوش ہورہا ہے اور جشن منایا جا رہا ہے وہ پیوٹن کا یہ بیان ہے کہ ہم بھارت کو ایک عظیم طاقت، ایک دوست ملک اور مختلف اوقات میں آزمائش کردہ دوست کے طور پر دیکھتے ہیں۔ساتھ ہی بھارت اور روس نے فوجی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے کئی معاہدوں پر دستخط بھی کیے۔ کامرس اور تجارت سے متعلق اٹھائیس سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے، جن میں اسٹیل، بحری جہاز تیار کرنے، کوئلے، اور توانائی کے شعبے شامل ہیں۔

اس کے علاوہ دس سال پر مبنی دفاعی تکنیکی تعاون کا معاہدہ اور ایک سال کا تیل کا معاہدہ بھی کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بھارت نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ روسی دفاعی میزائل سسٹم
S-400کی فراہمی بھی بھارت کو اسی ماہ سے شروع کر دی جائے گی۔ تقریبا پانچ ارب ڈالر کی یہ ڈیل 2018 میں طے کی گئی تھی۔ جس پرامریکا نے اپنی ناپسندیدگی بھی ظاہر کی تھی۔ لیکن مودی سرکار اپنی حرکت سے باز نہیں آئی اور یہ معاہدہ امریکہ کی مرضی کے خلاف چلتا رہا۔S-400دنیا کے جدید ترین دفاعی نظاموں میں سے ایک ہے یہ دنیا کے سب سے جدید ترین زمین سے فضا میں مار کرنے والے دفاعی نظام میں سے ایک ہے۔ اس کی رینج400کلومیٹر تک ہے اور یہ بیک وقت 80 اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور ایک ہی وقت میں دو میزائل کا نشانہ بھی لے سکتا ہے۔یہ دفاعی نظام حاصل کرنے کے بعد انڈیا کو ایک اہم دفاعی صلاحیت حاصل ہوجائے گی اور یہی وجہ ہے کہ اس نے امریکی پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود اس میزائل سسٹم کی خریداری کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد اندازہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ معاہدہ امریکہ اور انڈیا کے درمیان تناؤ پیدا کر سکتا ہے۔کیونکہ واشنگٹن نے کئی روسی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ روس، ایران اور شمالی کوریا کو اقتصادی اور سیاسی پابندیوں کا نشانہ بنانے کے لیے2017 میںCountering Americas Adverseries through sanctions ACTمتعارف کرایا گیا تھا۔ جو کسی بھی ملک کو ان ممالک کے ساتھ دفاعی معاہدوں پر دستخط کرنے سے روکتا ہے۔معاہدوں کے ساتھ ساتھ مودی اور پیوٹن نے سیاسی اور دفاعی معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ جس کے بعد نریندر مودی نے بیان دیا کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران دنیا نے بہت سی بنیادی تبدیلیاں دیکھی ہیں اور کئی نئے جیوپولیٹیکل گٹھ جوڑ سامنے آئے ہیں لیکن بھارت اور روس کی دوستی برقرار ہے۔خیر ان دونوں کی دوستی تو ان کے درمیان ہونے والے مصافحے اور مودی کی روایتی جپھی سے نظر بھی آرہی تھی۔ لیکن اب چیلنج یہ ہے کہ مودی سرکار آنے والے سنگین حالات اور چیلنجز سے کیسے نمٹے گی۔ کیونکہ دونوں ممالک نے پچھلے کچھ عرصے کے دوران جس طرح کے جغرافیائی اور سیاسی فیصلے کئے ہیں ان کے اثرات علاقائی اور عالمی سیاست پرظاہر ہونا لازمی بات ہے۔

خاص کر امریکہ کے معاملے میں انڈیا جو کہ پچھلے کچھ عرصے سے امریکہ کا ایک اہم اتحادی بنا ہوا ہے وزیراعظم مودی نے 2020میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے جس طرح سے ایک بڑی ریلی منعقد کی تھی جب وہ انڈیا کے دورے پر آئے تھے۔ یہ انڈیا کی طرف سے واشنگٹن کی حمایت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت تھا۔اس کے علاوہ جب انڈیا نے امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ چار ملکی اتحاد کواڈ میں شمولیت اختیار کی تھی تو روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس وقت کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس پر انڈیا کا کہنا تھا کہ کواڈ ایک غیر فوجی اتحاد ہے اور اس کا مقصد کسی مخصوص ملک کے خلاف نہیں ہے لیکن روسی وزیر خارجہ لاوروف اس سے متفق نظر نہیں آئے تھے۔لیکن ماسکو نے کافی حد تک اس طرح کی پریشان کن چیزوں کو نظر انداز کیا ہے، جبکہ دوسری طرف ماسکو کے واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات مسلسل خراب ہوتے رہے ہیں۔ اس لئے اب روس کو موقع مل گیا ہے کہ جو کچھ اس نے برداشت کیا وہ اس کا بدلا لے سکے اس لئے اب برداشت کرنے کی باری امریکہ کہ ہے۔ اس صورت حال کو جو چیز مزید مشکل بنا رہی ہے وہ انڈیا اور چین کے حالیہ بگڑتے ہوئے تعلقات ہیں۔ گذشتہ سال حالات اتنے بگڑ گئے تھے کہ دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان لداخ کی گلوان وادی میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر لاٹھیوں اور پتھروں سے خون ریز جھڑپ ہوئی جس میں کئی انڈین فوجی مارے گئے تھے۔ اس کے علاوہ انڈیا افغانستان میں بھی اپنا کھویا ہوا اثرورسوخ واپس حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے لئے انڈیا کی آخر امید روس ہی ہے کیونکہ اس وقت روس، چین، پاکستان اور افغانستان آپس میں کافی قریب ہیں۔ اس لئے انڈیا نے امریکہ کی ناراضگی کا خطرہ مول لیتے ہوئے روس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے کہ وہ چین اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں اس کی مدد کرے۔ اور یہ لازمی بات ہے کہ مودی اور پیوٹن کے درمیان اس پر بات چیت بھی ہوئی ہوگی۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکہ کو کن حالات میں جنگ چھوڑ کر افغانستان سے نکلنا پڑا تھا اور دوسری طرف امریکہ اور چین کے درمیان بھی معاملات کئی محازوں پر کافی کشیدہ ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ نے بیجنگ کے سرمائی اولمپکس2022 کا بھی سفارتی بائیکاٹ کرتے ہوئے کسی امریکی عہدیدار کو نہ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ وجہ بتاتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ چین میں انسانی حقوق کے خدشات کی وجہ سے کسی سرکاری وفد کو ان کھیلوں میں نہیں بھیجا جائے گا۔ دوسری طرف چین نے بائیکاٹ کی صورت میں جوابی اقدامات کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ تو کیا ان حالات میں امریکہ برداشت کر پائے گا کہ اس کا انڈیا جیسا اتحادی اس گروپ کے ملک کے ساتھ تعلقات بڑھائے جس کے چین کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں؟تو اس سوال کا جواب ہے بالکل نہیں امریکہ کبھی اس بات کو برداشت نہیں کرے گا۔

کچھ عرصہ پہلے جب چین اور ترکی نے روس سے S-400دفاعی نظام خریدنے کا معاہدہ کیا تھا تو امریکہ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا لیکن جب امریکہ کی ناراضگی کے باوجود یہ دونوں ممالک باز نہ آئے تو امریکہ کی جانب سے ان پر پابندیاں لگا دی گئیں تھیں۔ اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے انڈیا پر پابندیاں لگائی جائیں گی۔۔یعنی انڈیا میں جو روسی صدر کے دورے پر خوشیاں منائی جا رہیں ہیں وہ بہت جلد کھٹائی میں پڑنے والی ہیں۔ کیونکہ ان دس سالوں کے معاہدوں میں دس سال تک انڈیا سے پیسہ روس جاتا رہے گا۔ اور اس کے بدلے جو ہتھیار حاصل کئے جائیں گے وہ بھی انڈیا کے کسی کام نہیں آنے والے ان کا بھی وہی حال ہوگا جو کہ رافیل طیاروں کا ہوا تھا کیونکہ ان کو چلانے والے تو آخر انڈین ہی ہوں گے نا۔ اس کے علاوہ انڈیا روس کے زریعے چین اور افغانستان کے ساتھ جو تعلقات بہتر بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے وہ بھی نہیں ہونے والا کیونکہ چین جس طرح سے آگے بڑھ رہا ہے اب انڈیا کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ چین کو اپنے علاقوں میں آنے سے روک سکے ویسے بھی چین کبھی بھی انڈیا کو اس خطے میں مضبوط نہیں ہونے دے گا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ مودی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا آج اگر چین انڈیا کے ساتھ ہاتھ ملا بھی لے تو وہ دوبارہ کسی بھی وقت جا کر امریکہ کی گود میں بیٹھ سکتا ہے جو کسی بھی طرح چین کو نہیں برداشت اور نہ ہی روس کو برداشت ہوگا۔ اس لئے روس صرف ایک ہتھیار بیچنے والے ملک کے طور پر تو ضرور انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات قائم رکھے گا لیکن ان دونوں ممالک کے درمیان اس سے زیادہ کچھ نہیں ہونے والا۔

Leave a reply