امریکی دوغلا پن سامنے آنے لگا، تحریر: عفیفہ راؤ

0
34

ایک طرف امریکہ تشویش میں مبتلا ہے اور چین کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھا رہا ہے اور دوسری جانب سعودی عرب سے کروڑوں ڈالرز کے ہتھیار فروخت کرنے کی ڈیل کی جا رہی ہے یہ ہے امریکہ کا وہ دوغلا پن جو اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ پینٹاگون نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق چین بہت زیادہ تیزی سے جوہری ہتھیاروں پر کام کر رہا ہے اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو 2027تک چین کے پاس700Delivery able neuclear war heads
ہو سکتے ہیں اور2030تک یہ تعداد ایک ہزار تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پینٹاگون کے مقابلے میں چین کے پاس ڈھائی گنا زیادہ جوہری ہتھیار تیار ہو جائیں گے۔دراصل امریکی محکمہ دفاع نے کانگریس کے سامنے ایک سالانہ رپورٹ پیش کی ہے جس میں چینی فوجی پیش رفت کے حوالے سے صاف بتایا گیا کہ چین کسی ایک سمت میں نہیں بلکہ اپنے زمینی، سمندری اور فضائی تمام ایٹمی ترسیل کے پلیٹ فارمز کی تعداد میں سرمایہ کاری اور توسیع کر رہا ہے اور اپنی ایٹمی طاقت کی اس توسیع کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچے کی تعمیر بھی کی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ چند ہفتوں پہلے کئی امریکی ریسرچرز مغربی چین میں نئے جوہری میزائل سائلوس کی سیٹیلائٹ تصاویر پہلے ہی شائع کر چکے ہیں۔

اور اس تمام پیش رفت کی وجہ سے امریکی دفاعی اہلکار چین کو مستقبل کے حوالے سے ایک تشویش ناک ملک قرار دے رہے ہیں اور اس کے ارادوں کے بارے میں بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔
اس طرح کی باتیں اس لئے بھی کی جا رہی ہیں کیونکہ چین نے اپنے سرکاری منصوبے کے مطابق 2049تک پیپلز لبریشن آرمی کو عالمی معیار کی افواج میں تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ اور اگر چین اپنے جوہری ہتھیاروں پر اسی طرح تیزی سے کام کرتا رہا تو وہ یہ مقصد بہت پہلے یعنی2027 تک ہی حاصل کرلے گا جس کے بعد چین بہت آرام سے انڈو پیسیفک خطے میں امریکی فوج کا بھی مقابلہ کرسکے گا اور تائیوان کی قیادت کو بھی مجبور کر لے گا کہ وہ بیجنگ کی شرائط پر مذاکرات کی میز پرآجائیں اور انڈیا کو توبہت پہلے ہی چین اس کی اوقات دکھا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اس وقت چین کے جوہری ہتھیاروں پر سوالات اٹھانا شروع کر دئیے ہیں۔چین کے مقابلے میں امریکہ کی ہار کے حوالے سے تو پہلے ہی باتیں ہونا شروع ہو چکی ہیں جس کا اعتراف خود امریکی عہدیداران بھی کر رہے ہیں اس کی ایک حالیہ مثال امریکی محکمہ دفاع کے سابق چیف سافٹ ویئر افسر نکولس شیلان کا استعفی بھی ہے جو انہوں نے یہ کہتے ہوئے دیا کہ Artificial Intellignceپر مشتمل ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا چین سے ہار چکا ہے اور آنے والے 15 سے 20 برسوں تک امریکا کی جیت کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔

دراصل سپ پاور بننے کی دوڑ میں چین نے امریکہ کو اسی لئے اب پیچھے چھوڑ دیا ہے کہ وہArtificial Intellignceمیں بہت زیادہ جدت اور ترقی کر چکا ہے۔ چین اس وقت مشین لرننگ، سائبر صلاحیتوں اور ٹیکنالوجیکل ٹرانسفارمیشن میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔نکولس نے اپنے ایک انٹرویومیں صاف کہا کہ چین کے سامنے امریکی ٹیکنالوجی اب ایسی ہی ہے جیسے کے جی کلاس میں پڑھتا ایک بچہ۔جس کی ایک وجہ انہون نے یہ بھی بتائی کہ گوگل جیسی کمپنی امریکی محکمہ دفاع کے ساتھ کام کرنے سے انکاری ہے جبکہ دوسری طرف چین میں دیکھیں تو ہر چائنیز کمپنی حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے اور بھاری سرمایہ کاری بھی کی جا رہی ہے، چین نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس میں بے پناہ سرمایہ لگایا ہے۔ حالانکہ امریکا چین کے مقابلے میں اپنے دفاع پر تین گنا زیادہ خرچ کرتا ہے لیکن اس کا فائدہ اس لیے نہیں ہو رہا کیونکہ امریکا غلط شعبہ جات پر سرمایہ لگا رہا ہے۔ اپنے استعفے میں نکولس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ براہ مہربانی کسی ایسے میجر یا کرنل کو ٹیکنالوجی کے شعبے کا سربراہ لگانے یا ایک سے چار ملین صارفین کے ڈیٹا کا کلاؤڈ حوالے مت کریں جسے اس کام کا تجربہ ہی نہ ہو، کروڑوں ڈالر مالیت کا طیارہ بنانے کے بعد اسے اڑانے کے لیے بھی تو ایسے شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے جسے سینکڑوں گھنٹے پرواز کا تجربہ ہو۔ تو آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ جسے آئی ٹی کا تجربہ ہی نہ ہو اسے ٹیکنالوجی کے شعبے کا سربراہ بنا دیا جائے؟ ایسے شخص کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے اور کس چیز کو ترجیح دینا ہے اور اس صورتحال کی وجہ سے اصل کام سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔یعنی ایک طرف امریکہ کی پریشانی اور ہار ہے جو کہ اب نظر آنا شروع ہو چکی ہے خود امریکی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ لیکن دوسری طرف امریکہ کا دوغلاپن دیکھیں کہ اس نے سعودی عرب کے ساتھ کروڑوں ڈالرز کے ہتھیار فروخت کرنے کی ڈیل کر لی ہے۔

امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کو تقریبا 65 کروڑ امریکی ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کے ایک سودے کو منظوری دے دی گئی ہے اور اس سودے کے تحت امریکا سعودی عرب کو فضا سے فضا میں مار کرنے والے 280 جدید میزائل فراہم کرے گا۔ یہ جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے کسی خلیجی ملک سے اب تک ہتھیاروں کی سب سے بڑی ڈیل ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے یہ کہتے ہوئے اس سودے کی منظوری بھی دے دی ہے کہ گزشتہ ایک سال میں سعودی عرب کے خلاف سرحد پار سے حملوں میں اضافہ ہوا ہے اس لئے اس سودے کے زریعے موجودہ اور مستقبل کے خطرات سے نمٹنے میں ریاض کی مدد کی جا سکے گی۔ یہ فروخت امریکا کی خارجہ پالیسی اور اس کی قومی سلامتی کو ایک دوست ملک کی سکیورٹی کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے گی، جو مشرق وسطی میں سیاسی اور اقتصادی پیش رفت کے لیے ایک اہم قوت ہے۔یعنی چین اپنے ہتھیاروں پر کام کرے تو نا جائز ہے لیکن اپنے دوست سعودیہ عرب کی مدد اور ایران کی مخالفت کے لئے امریکہ خود جو بھی کرے وہ سب جائز ہے۔یہاں تک کہ بعض امریکی حلقوں میں بھی سعودی عرب کے ساتھ میزائیلوں کے اس سودے پر اعتراضات اٹھ رہے ہیں۔ لیکن امریکی وزارت خارجہ یہ کہہ کر اپنا دفاع کررہے ہیں کہ یہ ہتھیار زمینی حملے کے لیے نہیں ہیں اور میزائل صرف فضائی دفاع کے لیے ہیں۔ اور امریکی انتظامیہ نے یمن میں جنگ بندی کے خاتمے کے لیے سفارت کاری کی قیادت کرنے کا جو عہد کیا ہے یہ سودا اس سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔ تاکہ سعودی عرب کے پاس ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے فضائی حملوں سے اپنے دفاع کے ذرائع موجود ہوں۔ماضی میں ہم نے دیکھا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب کو ہر طرح کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی لیکن جوبائیڈن نے اپنی الیکشن کمپئین میں بھی اور صدر بن جانے کے بعد بھی اس پالیسی پر نظر ثانی کا اعلان کیا تھا۔ کیونکہ انھیں سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے حوالے سے ہمیشہ ہی کافی تشویش رہی ہے۔ اور ابھی کچھ دن پہلے تک بھی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ان کی انتظامیہ یمن میں سعودی عرب کے حملوں کی حمایت بند کرنے کے ساتھ ہی اسے ہتھیاروں کی فروخت پر بھی روک لگا دے گی۔ کیونکہ 2015 سے جب سعودی عرب نے اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف عسکری کارروائیاں شروع کی تھیں اور حوثیوں کے ٹھکانوں کومیزائلوں سے نشانہ بنانا شروع کیا تھا تب سے لیکر اب تک تقریبا چھ برس سے جاری اس جنگ میں تقریبا ڈھائی لاکھ افراد اب تک ہلاک ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے یمن اس وقت دنیا کے بد ترین انسانی بحران سے دو چار ہے۔

لیکن نہیں کیونکہ یمن کے مقابلے میں دوسری طرف امریکہ کا دیرینہ دوست سعودیہ عرب ہے تو اس کے لئے سب جائز ہے اس کو ہتھیار دینے سے یہومن رائٹس کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن یہ صرف ایک وجہ ہے اس ڈیل کی لیکن اس کے علاوہ بھی ایک اور وجہ ہے جس کے لئے امریکہ یہ ڈیل کرنے جا رہا ہے اور وہ ہے امریکہ کی کرونا کی وجہ سے گرتی ہوئی معیشت۔۔۔ دراصل اپنی معیشت کو سنبھالنے کے لئے امریکی حکومت نے امریکی ریاستMassachusettsکی ہتھیار بنانے والی کمپنیRaytheonجو کہ ایڈوانس قسم کے اے آئی ایم 120 سی/7 سی- 8 درمیانی رینج کے میزائل بناتی ہے جو فضا سے فضا میں مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں پینٹاگون کی طرف سے اس کمپنی کو یہ ٹھیکہ دیا جا رہا ہے تاکہ امریکہ میں کروڑوں ڈالرز کی انویسٹمنٹ آئے اور اس کی معیشت کو سہارا ملے اور دوستی بھی نبھائی جا سکے ویسے بھی جب سے امریکہ کا افغانستان سے انخلاء ہوا ہے تو امریکہ کی یہ ہتھیار بنانے والی انڈسٹری کا کاروبار کافی متاثر ہوا تھا اس لئے اپنی دفاعی انڈسٹری کو دوبارہ اٹھانے کے لئے جو بائیڈن انتظامیہ کے لئے بہت ضروری تھا کہ اس طرح کا کوئی بڑا معاہدہ کیا جائے جو ان کی معیشت کو بھی سہارا دے اور ساتھ کے ساتھ دوستی نبھائی گئی۔

Leave a reply