کسی بھی پختہ عمارت کے لئے اس کی بنیاد کا پختہ ہونا ضروری ہے اگر بنیاد پختہ نہیں ہوگی تو عمارت قائم نہیں رہ سکے گی۔
کسی بھی معاشرے کی نوجوان اس معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں
معاشرے کی مضبوط بنیاد کے لیے اس معاشرے کے نوجوانوں کی تربیت کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔
ہمارے معاشرے میں جب کسی نوجوان کو دیکھا جاتا ہے تو اس کی حرکات اور اس کے انداز کا بخوبی جائزہ لیا جاتا ہے اگر اچھے کردار کا مالک ہو تو یقینا اس کی تربیت اور اسکے والدین کی تعریف کی جاتی ہے کہا جاتا ہے کے اسکےوالدین نے اس کی تربیت اچھے انداز سےکی۔اور اگر کسی برائی میں ملوث پایا جائے تو اس کا الزام بھی والدین کی تربیت پر آتا ہے
ہے۔
اگر دیکھا جائے تو تو پرانے زمانے میں جب کوئی بچہ روتا تھا تو اس کے والدین یا قریبی عزیز اس کو اٹھا کر خاموش کرواتے اور اس بچے کو وقت دیتے تھے مگر آج کل جیسے ہی بچے کی رونے کی آواز آتی ہے ماں بچے کے ہاتھوں موبائل تھما دیتی ہے ٹیلی ویژن کے سامنے بٹھا دیتی ہے اور خود بے خبری کی وادی میں کھو جاتی ہے
وہ بچہ جب اس کو والدین کے وقت کی ضرورت تھی ان کی قربت کی ضرورت ہے کہ وہ جب موبائل کو پاتا ہے تو موبائل کو ان سب چیزوں سے بہتر پاتا ہے۔
اور پھر آج کل کے والدین کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ تو بس موبائل میں کھو گیا ہے ہر وقت موبائل کے ساتھ لگا رہتا ہے تو سوچا جائے تو اس چیز کی بنیاد کس نے ڈالی تھی۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ان کو اچھے برے کی تمیز کا فرق سکھاتے کیونکہ بچہ کچی عمر میں جو سیکھتا ہے وہ اپنی زندگی اس کے مطابق کی گزارتا ہے
جب ماں سے کہا جاتا ہے کہ بچے کے ہاتھ میں موبائل کیوں دیا تو یہی جواب آتا ہے کہ ہمیں گھر کے اور کام بھی ہوتے ہیں موبائل سے بچہ مصروف ہو جاتاہے تو ماں کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے ۔
بات کرتے ہیں شہزادی حضرت فاطمہ علیہ السلام کی جنہوں نے اولاد کی تربیت اس انداز سے کی کہ آج بھی زمانہ رشک کرتا ہے فاطمہ ع چکی پستیں ،گھر کے کام بھی کرتیں مگر اپنی اولاد کی تربیت اس انداز سے کی کہ امام حسن ع اور حسین ع دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار کہلوائے۔
خدارا بچوں کی تربیت میں کوتاہی نہ کریں۔
یہ آپ کی تربیت ہی ہے جو آپ کی اولاد کے کردار کو مضبوط بناتی ہے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد کا معاشر ے کے قابل افراد میں شمار ہو تو انکی تربیت اچھے انداز سے کریں ان کی بنیاد کو مضبوط بنائیے۔ایک مضبوط بنیاد پر ہی ایک مضبوط عمارت کھڑی ہو سکتی ہے