اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو ناقص العقل اور کم فہم بنایا ہے تو دوسری طرف عورت کی سادگی و بھولپن کو بھی لائق محبت رکھا عورت کتنی ہی غیر معمولی کیوں نہ ہو مرد کی ہوش مندی و ہوشیاری سے مات کھا جاتی ہے مرد کو اوصاف میں مقام میں برتری حاصل ہے اور اس کو سجتا بھی ہے کہ وہ اپنی برتری کا استمعال کرے حاکم بن کر نہیں بلکہ ایک زمہ داری ولی بن کر عورت کو ساتھ لے کر چلے اس کی اہمیت کو تسلیم کرے کیوں کہ عورت
ہمیشہ سے مضبوط، خود سے بہتر و برتر، سہارے کی تلاش میں رہتی ہے
اسے پسند ہے مضبوط اور محفوظ حصار میں رہنا مرد جتنا مضبوط ہو گا عورت خود کو معاشرے میں اتنا ہی زیادہ معتبر اور با وقار سمجھتی ہے
مرد محبت کو بھی اپنے تابع رکھنا چاہتا ہے جب دل کیا دو لفظ محبت کے بول کر عورت کو رام کر لیا اور جب چاہا اسکی زات کی توہین و تذلیل کر دی
مرد ہمیشہ خود کو برتر ہستی سمجھتا ہے اور سمجھنا چاہیے بھی لیکن دوسرا پہلو بھی مد نظر رکھنا چاہیے صنف نازک بھی انسان ہے اسکی بھی خواہشات ہیں اسکی مرضی بھی معنی رکھتی ہے لیکن بقول
مشتاق احمد یوسفی کے’’بعض مَردوں کو عشق میں محض اس لیے صدمے اور ذلّتیں اٹھانی پڑتی ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے کا مطلب وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ شاید عورت بھی اندھی ہوتی ہے
جو کہ سرا سر غلط اور قابل نفی حقیقت ہے
عورت ہمیشہ مرد کو ہر طرح سے جانچتی ہے معاشرتی لحاظ سے اسکا اسٹیٹس بھی دیکھنا ضروری ہے اور یہ اسکا بنیادی حق ہے محض محبت کے ورد پر زندگی نہیں گزرتی بہرحال زندگی کے حقائق سے انحراف ممکن نہیں
مرد اور عورت لازم و ملزوم ہیں اور یہ کبھی نہ ختم ہونے والی بحث ہے جو ہمیشہ سے چلتی آئی ہے لیکن مرد کی فضیلیت کو تسلیم کرنا چاہیے اور یہی حقیقت عورت کو ہمارے معاشرے میں معتبر کرتی ہے
مرد و زن دونوں ہی ہمارے معاشرے کا لازمی حصہ ہیں ایک کا کردار دوسرے سے مشروط ہے اور دونوں ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں
اور اگر بات کی جائے تربیت کی تو اس سے انکار ممکن نہیں کہ تربیت اگر بیٹی کو دینی ضروری ہے تو بیٹا بھی ایک متوازن شخصیت بننے کے لیے مکمل تربیت کا محتاج ہے
اگر لڑکی ماں اور بیوی کے کردار میں اہم ہے تو ایک مرد بھی باپ یا شوہر ہونے کے ناطے خاندان کی مضبوطی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ماں اور باپ دونوں مل کر ہی ایک صحت مند خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں کوئی ایک کبھی بھی دوسرے کی کمی کبھی پوری نہیں کر سکتا اس حقیقت سے بھی
انکار نہیں کہ بچوں کے لیے پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے تو باپ بھی اس تربیت گاہ کا ایک اہم اور بنیادی کردار ہے۔کسی بھی بچے کی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ گھر کا ماحول سازگار ہو اور اس ماحول کو بنانے والےمرد اور عورت والدین ہونے کا فریضہ احسن طریقے سے سر انجام دیں اور یہی ہمارے معاشرے کے لئے ضروری اور خوب صورت پہلو ہے جو ہمیں دوسرے معاشروں سے ممتاز رکھتا ہے۔
زہرا نگاہ نے عورت کا مقام یوں بیان کیا ہے
"ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی
دونوں فرض نبھا کر اس نے ساری عمر عبادت کی”
"عورت اور مرد لازم و ملزوم” تحریر: حافظ اسامہ ابوبکر
