ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے اپنی مرمت خود کرنے والا کنکریٹ
امریکی سائنسدانوں نے ایسا کنکریٹ ایجاد کرلیا ہے جو ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے اپنی ان دراڑوں کی خود ہی مرمت کرلیتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑی ہوتی جاتی ہیں اور بالآخر کسی بڑی تباہی کی وجہ بن سکتی ہیں۔
باغی ٹی وی: ’اپلائیڈ مٹیریلز ٹوڈے‘‘ نامی ریسرچ جرنل میں شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق کنکریٹ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مواد ہے اور یہ 8٪ عالمی کاربن کے اخراج کے لئے ذمہ دار ہے۔
یہ فطری طور پر آسانی سے ٹوٹنے والا ہے ، اور اس کے لئے بار بار مرمت یا متبادل کی ضرورت ہوتی ہے ، جو مہنگا ہوتا ہے اور بڑی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ مارٹر اور ایپوکسیز جیسے ایجنٹوں کی مرمت کے موجودہ طریقوں کے نتیجے میں مادی عدم مطابقت کی وجہ سے کم طاقت اور لچک پیدا ہونے والی ڈھانچے کا نتیجہ ہوتا ہے ، لہذا ، اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے ایک ماحول دوست سیمنٹ پیسٹ ایجاد کیا گیا ہے-
رپورٹ کے مطابق وورسیسٹر پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر نیما راہبر اور ان کے ساتھیوں نے یہ کنکریٹ انسانی خون میں پائے جانے والا ایک انزائم)استعمال کرتے ہوئے ایجاد کیا ہے-
تجربات کے دوران اس کنکریٹ نے فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہوئے اپنی دراڑیں اور چھوٹے موٹے سوراخ 24 گھنٹے میں خودبخود بند کردیئے۔
پروفیسر راہبر کے مطابق، بہتر کنکریٹ بنانے کی کوششوں میں انہیں انسانی خون میں پائے جانے والے ایک عام انزائم ’’کاربونک اینہائیڈریز‘‘ (سی اے) کے بارے میں معلوم ہوا جو خلیوں میں جمع ہوجانے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بہت تیزی سے نکال باہر کرتے ہوئے خون کے بہاؤ میں شامل کردیتا ہے، تاکہ وہ سہولت سے خارج ہوسکے۔
فوٹو بشکریہ سائنس ڈائریکٹ
یہی انزائم کنکریٹ کے سفوف میں شامل کیا گیا، جسے بعد ازاں پانی اور دوسرے اجزاء شامل کرکے حتمی شکل دی گئی۔ تجربات کے دوران ’’سی اے‘‘ انزائم نے کنکریٹ سے بنی اینٹوں میں ایک ملی میٹر جسامت والی دراڑوں اور سوراخوں کو 24 گھنٹے میں مکمل طور پر بند کردیا جبکہ اینٹوں کی مضبوطی بھی برقرار رہی۔
اس سے پہلے کنکریٹ کو خودکار طور پر اپنی مرمت کرنے کے قابل بنانے کےلیے خاص طرح کے جرثوموں (بیکٹیریا) استعمال کیے جاچکے ہیں لیکن ایسے طریقوں میں کسی چھوٹی دراڑ کے پُر ہونے میں بھی ایک مہینہ لگ جاتا تھا جبکہ یہ طریقے بہت مہنگے بھی ثابت ہوئے۔
’’سی اے‘‘ انزائم والے کنکریٹ میں جب کوئی دراڑ پڑتی ہے تو یہ انزائم ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کیمیائی عمل کرکے کیلشیم کاربونیٹ (چونے) کی قلمیں بناتا ہے جو کنکریٹ جیسی ہی مضبوط ہوتی ہیں۔
یہ قلمیں سوراخ یا دراڑ کو تیزی سے پُر کرتے ہوئے وہاں مضبوطی سے جم جاتی ہیں اور یوں کنکریٹ کی پائیداری بھی متاثر نہیں ہوتی۔
پروفیسر راہبر نے اندازہ لگایا ہے کہ ان کی وضع کردہ ٹیکنالوجی سے تعمیرات میں استعمال ہونے والے کنکریٹ کی پائیداری میں 20 سے 80 سال تک کا اضافہ کیا جاسکے گا؛ جبکہ کنکریٹ کی صنعت سے وسیع مقدار میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی (دوبارہ جذب کرتے ہوئے) مناسب حد تک کم کی جاسکے گی۔
فی الحال یہ ٹیکنالوجی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے لہذا یہ بتایا نہیں جاسکتا ہے کہ اسے صنعتی پیمانے تک پہنچنے میں کتنے سال لگیں گے، اور اس طرح بننے والے کنکریٹ کی لاگت کتنی ہوگی۔