اپنے حصے کی شمع روشن کرنی ہے تحریر : راجہ ارشد

0
45

ہم ہر روز سینکڑوں ایسے بچوں کو دیکھتے ہیں جو کسی شاہراہ پر کھڑے پانی کی بوتلیں اٹھائے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں کئی کسی پارک میں غبارے بیچتے نظر آئیں گے یا کسی ہوٹل پر برتن دھوتے دکھائی دیتے ہیں یہ میرے بچے اس قوم کا اس وطن کا مستقبل ہیں۔

یہ اس مٹی کے محافظ آزادی کے امین ہیں ہم ایسے کرداروں کو دیکھ کر اپنی زندگی کی مصروفیات میں مگن ہو جاتے ہیں احساس کا ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے عملی طور پر تو کچھ کرنا شاید ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں یا پھر اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتے یہ غربت میں پلنے والے میرے بچے محنت کش اللہ کے بہترین دوست ہیں۔

جو روز قیامت صرف حکمرانوں کی ہی نہیں ہر صاحب استطاعت کی شکایت کریں گے بڑے محلات میں رہنے والے آرام دہ گاڑیوں میں سفر کرنے والے میدان حشر میں ان بچوں کے مجرم ہوں گے وطن عزیز کی آزادی کے وقت جسم پر جو دو کپڑے تھے سات دہائیوں کے بعد اپنے تن کو ڈھانپنے کے لئے ایک چادر بھی مشکل سے ملتی ہے سندھ کے تھر میں چلیں جائیں یا بلوچستان کے ریگستانوں میں پنجاب کے دیہاتوں کی بات ہو یا پھر پختونخواہ کے دور دراز پہاڑی علاقوں کی جہاں غربت نے اس قدر ڈیرے ڈالے ہیں کہ بچوں کی تعلیم تو درکنار لباس اور خوراک بھی پوری طرح نہیں ملتی ہے۔

جہاں پینے کا صاف پانی نہیں ہے بھوک سے بچے مر رہے ہیں میرے بچوں نے یہ سوال ہم سب سے کرنا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے سوال تو ہو گا نماز روزوں کا لیکن بات جب بھوک کی ہو گی تو شاید وہ شکایت ہمارے لیے سزا کا باعث بن جائے یہ میرے بچے رزق حلال کماتے ہیں ان کو تعلیم کی ضرورت ہے ان کے بھی خواب ہیں وہ بھی شہر میں جانا چاہتے ہیں ایئر کنڈیشن روم میں بیٹھ کر نوکری کرنا چاہتے ہیں کاروبار کرنا چاہتے ہیں ان کے بھی ارمان ہیں اچھے کپڑے پہننا چاہتے ہیں زندگی کو جینا چاہتے ہیں۔

چھوٹی چھوٹی خوشیاں دیکھنا چاہتے ہیں یہ اس قوم کا مستقبل ہیں ان کی تربیت ان کی تعلیم اچھا لباس اچھا گھر ہم سب کی ذمہ داری ہے حکمرانوں سے امید رکھنا اور صرف حاکم وقت کی ذمہ داری سمجھ کر آنکھیں بند کر لینے سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔

ہر انسان کو انفرادی طور پر اپنے حصے کی شمع روشن کرنی ہے ایک ایسے بچے کی اچھی تربیت کرنا اسے تعلیم دلانا اچھا اور قابل شہری بنانا نا صرف دلی سکون دے گا بلکہ صدقہ جاریہ ہو گا ہمیں عہد کرنا ہے اپنی حیثیت کے مطابق اس کام کو اپنا فرض سمجھ کر ادا کرنا ہے کسی کے دکھاوے یا شاباش لینے کے لئے نہیں۔

بلکہ اللہ کی رضا کے لیے کرنا ہے انشاءاللہ جس دن ہم اپنی انفرادی ذمہ داریوں کو پورا کرنے لگے تو میری قوم کے بچے نہ بھوکے سوئیں گے نا ہی سڑکوں پر ننگے پائوں پھرتے نظر آئیں گے بلکہ اس قوم کا ہر فرد پڑھا لکھا باشعور معزز شہری ہو گا یہی ترقی کی طرف جاتا راستہ ہے جس سے ہم عظیم قوم بن سکتے ہیں۔

اللہ پاک سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین

@RajaArshad56

Leave a reply