آرٹس کونسل کراچی میں حسینہ معین کی یاد میں تقریب،ملک کی نامور ادبی شخصیات اور فنکاروں کی شرکت

0
51

کراچی : آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں چند روز قبل وفات پانے والی معروف ڈراما نویس اور آرٹس کونسل کراچی کی نائب صدر حسینہ معین کی یاد میں تعزیتی اجلاس جون ایلیاء لان میں منعقد کیا گیا۔

باغی ٹی وی : تفصیلا ت کے مطابق گزشتہ روز اجلاس میں ادیب و دانشور انور مقصود، افتخار عارف، کشور ناہید، حارث خلیق، منور سعید، ارشد محمود، اداکار شکیل، ساجد حسن، خالد انعم، مہتاب اکبر راشدی، سمیت معروف علمی و ادبی شخصیات اور ٹی وی کے نامور ستاروں نے خطاب کیا۔

ان کے ساتھ صدر آرٹس کونسل احمد شاہ، سیکرٹری پروفیسر اعجاز احمد فاروقی، سید اسجد بخاری، گورننگ باڈی کے رکن طلعت حسین، ڈاکٹر قیصر سجاد، کاشف گرامی، قدسیہ اکبر، محمد اقبال لطیف، سید سعادت علی جعفری، عنبرین حسیب عنبر، ڈاکٹر ایوب شیخ، نصرت حارث، بشیر خان سدوزئی، عظمیٰ الکریم، شکیل خان، اخلاق احمد اور عرفان اللہ خان نے بھی شرکت کی۔

اس تعزیتی اجلاس کی نظامت کے فرائض ہما میر نے انجام دیئے، تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے کیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق اس موقع پر معروف ادیب و دانشور انور مقصود نے کہا کہ حسینہ کمال کی خاتون تھیں وہ مجھ سے یونیورسٹی میں سینئر تھیں، ان سے جب آخری ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک نظم سنائی تھیں ’آخر کہ تئیں ہنس اکیلا ہی سدھارا‘۔ انور مقصود نے یہ بھی کہا کہ کیوں نہ حسینہ کو ہنس کر یاد کیا جائے۔

صدر آرٹس کونسل نے کہا کہ گزشتہ 10 برسوں سے ہمارا ان سے گہرا تعلق تھا، حسینہ آپا ہماری گورننگ باڈی کی ممبر رہیں اور پھر نائب صدر بنیں۔

احمد شاہ نے مزید کہا کہ ان کے آخری الفاظ تھے احمد کو فون کرو، میری بیٹی کی شادی میں انہوں نے بالکل گھر کے بزرگ کی طرح اسے رخصت کیا۔

انہوں نے کہا کہ حسینہ آپا کے جانے سے ہمارا ذاتی نقصان ہوا ہے، وہ ہماری ماں اور سربراہ تھیں، ہم آرٹس کونسل کے ہال کا نام حسینہ معین ہال رکھ رہے ہیں ان کا نام یہاں ہمیشہ باقی رہے گا۔

صدر آرٹس کونسل نے یہ بھی کہا کہ حسینہ آپا جیسے لوگوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کو زینت بخشی، انہوں نے 23 مارچ کے پروگرام میں آخری تقریر کی اور کہا کی میں چلتی ہوں اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہندوستان سمیت دنیا کے ادیبوں اور فنکاروں نے تعزیت کے لیے آرٹس کونسل فون کیا ہے، میں ان سب کا شکر گزار ہوں۔

کشور ناہید نے کہا کہ میرے اور حسینہ کے مضمون الگ تھے، میں شاعری لکھتی تھی اور وہ ڈرامہ، لیکن ایک موقع پر آکے ہمارا سنگم ہوتا ہے، اس نے مجھے آخری سیڑھی پر نہیں چڑھنے دیا اور مجھ سے پہلے چلی گئی۔

افتخار عارف نے کہا کہ میری پہلی دفعہ ان سے ملاقات ہوئی جب وہ بچوں کے لیے خاکے لکھا کرتی تھیں پھر ٹی وی پر انہوں نے بے شمار کامیاب سیریل لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی حسینہ معین سے زندگی کی شکایت نہیں سنی، انہوں نے کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا، وہ ڈرامے اپنی مرضی سے لکھا کرتی تھی پر جب اسکرپٹز تیار کرتی تھیں تو پروڈیوسرز کے ساتھ بیٹھ کر لکھتی تھیں۔

افتخار عارف نے مزید کہا کہ میں نے احمد شاہ سے درخواست کی ہے کہ حسینہ آپا کے ڈراموں کی کوئی کلیات شائع کردیں تا کہ وہ ہمیشہ باقی رہیں ٹیلی ویژن کی حد تک کوئی دوسری خاتون ایسی نہیں ہیں جنہوں نے سوشل اسٹبلیش منزمنٹز کے خلاف لکھا اور شہرت پائی۔

اداکار طلعت حسین نے کہا کہ حسینہ آپا نے ہمیں چلنا سکھایا مجھے بتایا کہ ڈرامہ کیا ہے کیسے بنتا ہے، ان کے بہت سے ڈراموں میں کام کیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوا مجھے اپنے مخصوص انداز میں ڈانٹا بھی کرتی تھیں انہوں نے ہر موڑ پر میری بہت مدد کی۔

اداکارہ ثانیہ سعید نے کہا کہ حسینہ آپا سے میرا دلچسپ رشتہ تھا، پچھلے چند سالوں میں ان کے ساتھ سفر کا بھی موقع ملتا رہا جب مجھے ”آہٹ“ آفر ہوا تھا تو حسینہ آپا کو میں خاص پسند نہیں آئی تھی پر بعد میں ہمارا ایک گہرا تعلق قائم ہوا۔

انہوں نے کہا کہ دوسروں کے نقطہ نظر کو آپا بہت اہمیت دیتی اور وہ روایت توڑنے والوں میں سے تھیں لوگ کہتے ہیں فنکار کیا کرسکتے ہیں، دوسرے ممالک میں پاکستان کو تھوڑا زندہ رکھتے ہیں جیسے حسینہ آپا نے اپنی تحریروں سے کیا۔

بہروز سبزواری نے کہا کہ وہ بہت دھیمے مزاج کی خاتون تھیں، وہ سینز لکھ کر لاتی تھیں اور پھر پروڈیوسرز کے ساتھ مل کر انہیں مکمل کرتی تھیں، میں ان کا بہت چہیتا تھ ساری زندگی وہ اکیلی رہی ہیں اور اکیلی ہی رخصت ہوگئیں میں ان کیلئے دعاگو ہوں اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جہاں بھی اُردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں حسینہ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

اداکار شکیل نے کہا کہ بات کرنی کبھی اتنی مشکل نہ تھی جتنی آج لگ رہی ہے، میری ان سے آخری ملاقات نہ ہو پائی میں بہت خوش قسمت ہوں کہ حسینہ کے ساتھ کام کرنے کا سب سے زیادہ مجھے موقع ملا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ٹیلی ویڑن کا سفر ایک ساتھ شروع ہوا، مجھے یہ راستہ انہوں نے ہی دکھایا تھا، میری ٹیلی ویژن کی پہچان میں حسینہ کا نمایاں کردار تھا۔

ارشد محمود نے کہا کہ ’اَن کہی‘ کے وقت میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی، اس کے بعد ہمارا ایک گہرا تعلق بن گیا، انہوں نے جتنے بھی ڈرامے لکھے تھے، ان میں کسی نہ کسی حوالے سے میرا تعلق رہا، ہم انہیں ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔

اس موقع پر سیاسی رہنما تاج حیدر نے کہا کہ جس دور میں وہ لکھ رہی تھیں وہ جبر کا دور تھا جو صدیوں سے چل رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جو آرٹ سوالات نہ اٹھائے جس میں جہد نہ ہو وہ آرٹ نہیں ہوتا، حسینہ نے جبر کے دور میں سوالات اٹھائے پیغامات دیئے۔

تاج حیدر نے مزید کہا کہ انہوں نے جو حوصلہ اُس وقت دیا عورتوں پر اس کے اثرات آج بھی ہیں، ہر ایک نے کہا وہ چلی گئیں، جسمانی طور پر وہ نہیں ہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ ہم میں موجود ہیں اور رہیں گی۔

مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ جو کردار حسینہ نے اپنے ڈراموں میں تخلیق کیے وہ کردار ان کے اپنے جذبات تھے، وہ خود کسی سے نہیں لڑتی تھیں، پر ان کے کردار بہت بولڈ ہوتے تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ حسینہ معین نے اپنے کرداروں کے عمل سے دکھایا کہ خواتیں کو کیسا ہونا چاہیے آج ہم ان کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔

اس موقع پر اسد محمد خاں، حارث خلیق، منور سعید، ڈاکٹر فاطمہ حسن، مصباح خالد، عمرانہ مقصود، ساجد حسن، ایم ظہیر خان، ڈاکٹر عالیہ امام نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ان کی زندگی میں لکھے گئے ڈراموں پر مبنی ڈاکومینٹری فلم دکھائی گئی،آخر میں اقبال لطیف نے دُعائے مغفرت کرائی۔

Leave a reply