جب ایف آئی آر درج نہ ہوئی ، اسد بن سعید کا بلاگ

0
30

جب ایف آئی آر درج نہ ہوئی اسد بن سعید

5 اگست 2017 کی شام میں حفیظ اللہ بھائی کی دوکان پر بیٹھا تھا کہ 2 مسلح ڈاکووں نے مجھے لوٹ لیا جب میں رپورٹ درج کرانے سدھوپوہ چوکی پہنچا تو وہاں موجود محرر اور تفتیشی اے ایس آئی نے میری تفتیش شروع کر دی. کتنے آدمی تھے؟ کس کس کے پاس گن تھی؟ تم اکیلے کیوں بیٹھے تھے؟ تمہارے پاس کیا تھا؟ حد تو یہ ہوگئی کہ میری تلاشی تک لے چھوڑی کہ جس پرس کو ڈاکو چھین کر لے گئے وہ اس مولوی نما سائل کی جیب سے ہی برآمد کر کے مدع ہی ختم کرو… خیر, مجھے غصہ آگیا اور میں نے ان دونوں کو کھری کھر سنا دیں کہ ایک تو میرا نقصان ہوا اوپر سے تم مجھے ہی چور بنانے پر تلے ہو. انہوں نے ایف آئی آر کیلئے اگلے دن ایس ایچ او کے ہاں پیش ہونے کو کہا اور خود کسی ضروری کام کیلئے روانہ ہوگئے.
آج تک میرے ساتھ چار ڈکیتی, راہزنی کی وارداتیں ہوچکی ہیں جن میں سے ایک میں مجھے خنجر بھی لگے. جب جب میں تھانہ گیا ہر دفعہ پولیس کی نئی کہانیاں سن کر واپس ہوا. ایک دفعہ تو والد صاحب کی دوکان میں نقب لگاتی ہوئی چورنیوں کو رنگے ہاتھوں حوالہ پولیس بھی کیا لیکن وہاں بھی ہمیں ہی شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اور تھانہ غلام محمد آباد کے اے ایس آئی محترم خالد صاحب کو کسی پیر بابا کو فون پر یہ کہتے ہوئے ہم نے خود سنا کہ "بابا جی تسی پریشان نہ ہو, تواڈیاں ملنگنیاں اج چھُٹ جان گیاں بس دو چھوہر ہی تے آئے نو اینہاں دے پِچھے” یعنی بابا جی آپ پریشان نہ ہوں آپکی ملنگنیاں آج ہی چھوٹ جائیں گی ان کے پیچھے صرف دو لڑکے ہی تو آئے ہیں.
ایک دفعہ مجھ سے پی ٹی سی ایل کی ٹیب چھین لی گئی جس کا ای ایم ای آئی نمبر اور اس میں موجود بِلٹ اِن انٹرنیٹ جوکہ راہزنی کے بعد بھی چل رہا تھا اس کے متعلق بھی بتایا اور سی پی ایل سی آفس جا کر زور دے کر بتایا کہ جناب آپ بہت آسانی سے اس ڈیوائس کی لوکیشن ٹریک کر کے اس گینگ کو پکڑ سکتے ہیں لیکن ہماری مستعد پیشہ ور پولیس کو توفیق کہاں کہ وہ اتنا آسان ٹارگٹ بھی حاصل کر سکے.
اگر دیکھا جائے تو میں معاشرے کا ایک پڑھا لکھا, کچھ حد تک اثر و رسوخ رکھنے والا فرد ہوں لیکن پولیس سٹیشن کی حدود میں جاکر میری کیا اوقات رہ جاتی ہے یہ میں خوب سمجھ چکا ہوں. اگر ایسے حالات ہم جیسوں کے ہیں تو اندازہ لگائیے کہ پولیس کے سامنے ایک غریب یا ناخواندہ شہری کی کیا اوقات ہوتی ہوگی؟ ہمارے ہاں قانون کی بالادستی اور پولیس ریفارمز کے دعوے تو بہت کئے گئے لیکن انکو عملی جامہ پہنانے کیلئے کیا حکمت عملی ہے اسکا کسی کو علم نہیں. کوئی اپنے خاندان کے ساتھ جاتے جاتے بچوں کے سامنے مار دیا جائے یا اے ٹی ایم کے سامنے زبان نکالنے پر جوڑ جوڑ پر تشدد کر کے جان سے مار دیا جائے کوئی پوچھنے والا نہیں. یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں کسی کی کوئی اہمیت نہیں.
آج سے چند دن پہلے تک لِفٹ مانگنے والے پولیس والوں کو اپنے گاڑی میں بٹھا لیا کرتا تھا لیکن اب سچ میں ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں یہ پولیس والے مجھ جیسے داڑھی والے کو صلاح الدین ہی نہ بنا چھوڑیں…
ہاں میں جانتا ہوں کہ میرے کچھ دوست میری موجودہ سوچ سے اختلاف کرتے ہوئے یہ بھی کہیں گے کہ سب پولیس والے برے نہیں ہوتے کچھ اچھے بھی ہیں, تو ان سے میرا سوال ہے کہ فائزہ جیسے اچھے پولیس والوں کو استعفی دے کر یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے کہ میں ایک غریب گھر کی لڑکی عوام کی خدمت کیلئے اس شعبہ میں آئی تھی لیکن یہ شعبہ کسی کا نہیں بنتا اس لئے میں استعفی دے کر اسے چھوڑ رہی ہوں.

Leave a reply