رواں ہفتے لاہور میں دو دلخراش اور انتہائی افسوس ناک واقعات پیش آئے. دونوں واقعات نے تمام پاکستانیوں کو غمگین کر دیا بالخصوص مینار پاکستان والے واقعے نے تو جہاں پاکستانیوں کو غم و غصے میں مبتلا کیا وہیں کچھ اسلام اور پاکستان مخالف لوگوں نے بھی اس واقعے اور موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی. مینار پاکستان والے واقعے میں دونوں فریقین کی غلطی ہو سکتی ہے مگر دوسرے رکشے والے واقعہ میں ایک بدقماش اور آوارہ لڑکوں کے جھنڈ کی سراسر غلطی تھی. ان دونوں واقعات سمیت ملک بھر میں پیش آنے والے تمام واقعات میں ایک چیز مشترک ہے، وہ ہے والدین کی طرف سے اولاد کی تربیت کا فقدان.
ویسے تو ہر جرم کے ہر مرتکب شخص کی شرعی اور اخلاقی تربیت کا فقدان ہوتا ہے مگر ایسے تمام واقعات بالخصوص جن میں خواتین کے ساتھ بدتمیزی اور نازیبا حرکات کی جاتی ہیں ان میں لازمی طور پر تعلیم و تربیت کا فقدان ہوتا ہے. صبح سے شام تک سخت گرمی اور سردی میں رزق حلال کما کر یا یکم سے 30 تک پورا مہنیہ کام کرکے اپنے بچوں کو کھانا کھلا دینا، اسے والدین اپنی ذمہ داری کی تکمیل مت سمجھیں. اپنی اولاد کو کھانا کھلانے اور جائز ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری تو ایک خاص عمر اور خاص حالت تک عائد ہوتی ہے مگر تربیت کے لئے تو والدین اور بچے کی ساری عمر ناکافی ہے اور لازمی ہے.
اسلام نے والدین کو اپنی اولاد کی تربیت کے لئے پابند بناتے ہوئے وسیع اختیارات بھی دے رکھے ہیں. نماز کی پابندی اور شرعی تربیت کے لئے والدین کو اسلام کی طرف سے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ بچے کو سمجھاؤ، نہ سمجھے تو ڈانٹ ڈپٹ کرو، پھر نہ سمجھے تو ہاتھ اٹھا سکتے ہو اگر پھر بھی باز نہ آئے تو گھر سے نکال کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جائیداد سے عاق کرکے لاتعلقی کا اعلان کر سکتے ہو.
ارشاد ربانی کے مطابق "بہترین عزت والا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہو”، انسانیت کے حوالے سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد عالیشان کے مطابق
"تم میں سے بہترین مومن وہ ہے جس کے ہاتھ، کان اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو” اسی طرح ایک اور جگہ رسولﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ
"بہترین انسان وہ ہے جو انسانوں کو فائدہ پہنچاتا ہے”. ان تمام احکامات کو جنسی ہراسگی کے تناظر میں دیکھا جائے تو بات سمجھ آ جاتی ہے کہ برائی کی وجہ کیا ہے. جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوگا ان میں عورت پردے اور چادر کا خیال کرتے ہوئے باحیا ہو گی اور اسی طرح مرد اپنی نگاہوں کو جھکا کر چلے گا اور ہر عورت کو عزت دے گا. مسلمان اپنے قول و فعل سے کسی کو تکلیف پہنچانے سے باز رہیں گے.
جرم کی سب سے بڑی وجہ والدین ہیں اور مجرمین سے زیادہ مجرم والدین ہیں. جو اپنی اولاد کی تربیت نہیں کرتے. اگر تمام والدین اسلامیات اور اخلاقیات کی روشنی میں اپنی اولاد کی تربیت کرنا شروع کر دیں تو معاشرے سے جرم مکمل طور پر ختم ہو جائے. خواتین کے متعلقہ تمام واقعات میں والدین کی تربیت کہیں نظر نہیں آتی. آج کل کے دور میں والدین اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے کیوں کو وہ تربیت کو اہم نہیں سمجھتے. اپنی اولاد کی شرعی اور اخلاقی تربیت کرنا والدین پر فرض ہے. بدقسمتی سے والدین اسلام سے دور ہیں، والدین کی اولاد کے متعلق ترجیحات اور اہداف نہ غیر ضروری ہیں بلکہ بعض اوقات اسلام اور اخلاقیات کے بھی متصادم ہوتے ہیں. بہت سارے والدین اپنی اولاد کے لئے گلوکاری، اداکاری، سوشل میڈیا پر فالورز اور ریٹنگ لینے کے لئے محنت اور دعا کرتے نظر آتے ہیں.
مینار پاکستان واقعہ، نور مقدم واقعہ، اسلام آباد عثمان مرزا واقعہ، یہ ایسے واقعات ہیں جن میں دونوں فریقین اور ان کے والدین برابر کے مجرم ہیں. والدین کی تربیت میں ناکامی یا عدم دلچسپی پاکستان اور اسلام کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہے. نور مقدم کے والدین اور قاتل ظاہر جعفر کے والدین نے نہ صرف اپنی اولادوں کی تربیت کرنے میں ناکام رہے بلکہ ان کے درمیان ناجائز تعلقات پر بھی راضی رہے. اسی طرح مینار پاکستان والے معاملے میں لڑکی عائشہ کے والدین بخوبی جانتے تھے کہ ان کی بیٹی کیا کر رہی ہے اور ریمبو کون ہے اور ان دونوں کے درمیان کیا تعلقات ہیں.
والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی شرعی اور اخلاقی تربیت کریں. اگر ان کی اولاد میں سے کوئی بھی غلطی کرے اسکو سزا دیں، پولیس اور اداروں کے ساتھ تعاون کریں اور اپنے بیٹے، بیٹی یا بہن بھائی کو قانون کے حوالے کریں. اچھی تربیت کے بعد صرف سزا ہی ہے جس کے ذریعے معاشرے کو سدھارا جا سکتا ہے.
اولاد کی اچھی تربیت کئیے بغیر اور مجرم کو قرار واقعی سزا دئیے بغیر جرم کو ختم کرنا تو دور کی بات، کم بھی نہیں کیا جا سکتا. اچھی تربیت اور سزا کے ذریعے ہی جرم ختم کیا جا سکتا ہے.
دوسرے نمبر پر ان جرائم کی ذمہ دار ریاست اور متعلقہ ادارے بھی ہیں. سزا جزا کا عمل ناپید ہو چکا ہے. اگر کوئی سنگین جرم میں اقبال جرم کر لے تو چند ہزار کے بدلے عدالت ضمانت پر رہا کر دیتی ہے. جس سے مجرم سزا اور قید سے بچ جاتا ہے. میں آج تک یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا مطلب کیا ہے. اسلام میں سزا اور جزا ہے، اسلام میں معافی بھی ہے اگر متاثرہ خاندان یا شخص اور لواحقین گناہ گار کو معاف کر دیں. سنگین مجرموں کو ضمانت پر بھی رہائی نہیں ملنی چاہیے. مجرم کو جیسا جرم ویسی سزا یقینی ملنی چاہیے.
ایسے غیر اخلاقی اور ناخوشگوار واقعات کی وجوہات میں سے تیسرا نمبر غیر اخلاقی اور غیرمعیاری ڈرامے اور فلمیں ہیں. جب صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا تب تقریباً سب صحیح تھا. معیاری، اخلاقی اور ثقافتی ڈرامے دیکھنے کو ملتے تھے. جس سے نئی نسل کی کردار سازی ہوتی تھی. اب واہیات، فحش اور بے ہودہ ڈراموں نے گھر اجاڑ دئیے، میاں بیوی کے درمیان طلاق کی شرح میں اضافہ کردیا. معاشرے میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کو بڑھا دیا.
میرے خیال میں موجودہ حالات کی مخلوط نظام تعلیم بھی ایک وجہ ہے. غیر مردوں کے ساتھ غیر عورتیں اور غیر عورتوں کے ساتھ غیر مرد بیٹھ کر پڑھیں گے اور پڑھائیں گے تو معاشرہ سدھرنے اور سنورنے کی بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہوگا.
لب لباب یہ ہے کہ معاشرے کو سنوارنے کے لئے تربیت کے حوالے سے والدین پر اولین اور سب سے اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے. اس کے بعد ریاست اور اداروں کو ذمہ داری نبھاتے ہوئے سزا و جزا کو یقین بنانا ہوگا اور نظام تعلیم میں تبدیلی لاتے ہوئے تعلیم کو اخلاقیات اور شریعت کے عین مطابق بنانا ہوگا.
@mian_ihsaan