آصف زرداری کا مشن کامیاب ہو گا؟ تحریر: نوید شیخ

0
108
تیر کا نشان فتح کا نشان، شاباش جیالو شاباش،آصف زرداری کا پیغام

آصف زرداری کا مشن کامیاب ہو گا؟ تحریر: نوید شیخ

آج کافی دنوں بعد بڑی خبریں ہیں ۔ آج تمام چیزیں کھول کر آپ سامنے رکھوں گا کہ زرداری کا مشن لاہور کیا ہے ۔ کیسے جنوبی پنجاب محاذ دوبارہ سرگرم ہونے والا ہے ۔ پی ٹی آئی نے اگلے الیکشن کے لیے کن چالیس لاکھ ووٹروں سے امید باندھ لی ہیں ۔ اور دو سال پہلے ہی جنرل الیکشن کی تیاری کیوں شروع ہوگی ہے ۔

۔ مگر ان سب چیزوں پر بات کرنے سے پہلے چند آج کی خبریں ہیں ۔ آئل ٹینکر والے احتجا ج رہے ہیں جس سے کئی شہروں میں پیٹرول کی قلت ہوسکتی ہے ۔ فلور ملز والے احتجاج کررہے ہیں ۔ اس حوالے سے بھی کہا جا رہا ہے کہ لاہور اور فیصل آباد میں آٹے کی قلت ہوسکتی ہے اور ریٹ اوپر جا سکتا ہے ۔ پھر سندھ میں گیس کی قلت کی وجہ سے صنعتوں اور سی این جی اسٹیشنوں کو سپلائی معطل کر دی گئی ہے ۔ لاہور میں واسا نے پانی کے بلوں میں
45
فیصد اضافے کی منظوری دے دی ہے ۔ یہ آئل ٹینکر والے اور فلور مل والے بھی اضافی ٹیکسوں کی ہی وجہ سے احتجاج کررہے ہیں۔ حالانکہ بجٹ دیتے وقت کہا گیا تھا کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگائیں گے ۔ یہ ٹیکس فری بجٹ ہے۔ مزے کی بات ہے کہ ابھی بجٹ نے پاس ہونا ہے مگر اس کے ثمرات عوام تک پہنچانا شروع ہوگئے ہیں ۔

۔ سیاست کی بات کریں تو کچھ ہفتے پہلے اپوزیشن میں جو جوش و خروش پیدا ہوا تھا۔ اب وہ سرد پڑ گیا ہے ۔ لے دے کر شہباز شریف ہی دیکھائی دیتے ہیں ۔ مریم نواز کی گھن گرج بھی اب ختم ہوگئی ہے ۔ وہ بھی تب ہی میڈیا کو اپنا درشن کرواتی ہیں جب کوئی پیشی ہو ۔ ورنہ سب سے سستی شائد خاموشی ہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کبھی کبھی میڈیا پراپنا چہرہ دکھاتے ہیں لیکن ہیں وہ بھی خاموش ہی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب لوگوں کو دیکھانے کے لیے ہو اور اندر کھاتے ایک بڑی پلاننگ چل رہی ہے ۔

۔ مگر ن لیگ اور پی ٹی آئی سے ہٹ کر ملک میں ایک تیسری سیاسی قوت بھی ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی ۔۔۔ ۔ اس تمام منظر میں مفاہمت کے بادشاہ اور سیاست کے جادوگر سابق صدر آصف زرداری آئندہ انتخابات میں سرپرائز دینے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ ۔ زرداری کی پرویز الٰہی سے ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو ان کے عزائم اور مستقبل کے سیاسی نقشے کا پتہ دیتی ہے۔ میڈیا پر ذرائع کے حوالے سے شائع شدہ اندرونی کہانی کے مطابق دوران ملاقات آصف زرداری نے پرویز الٰہی کو مخاطب کرکے کہا ۔۔۔ آپ ہمارے بھی اتحادی تھے اور اس حکومت کے بھی ہیں۔ فرق تو پتا چل گیا ہوگا؟ عمران خان کبھی سیاستدان نہیں تھے، خان کو لانے والے بھی اب پچھتا رہے ہیں، اگلے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی سب کو سرپرائز دے گی۔ جلد جنوبی پنجاب کی اہم شخصیات پیپلز پارٹی میں شامل ہوں گی۔ ۔ اس موقع پر پرویز الٰہی نے بھی بلاول بھٹو کی تعریف کی اور کہا کہ قومی اسمبلی میں متعدد مرتبہ بلاول بھٹو کی تقریر سنی بہت میچور بات کرتے ہیں۔۔ اس گفتگو سے حساب لگائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری اگلے الیکشن کی تیاری میں کمر کس چکے ہیں۔

۔ اب یہاں زرا رک جائیں ایسا نہیں ہے کہ عمران خان یا پی ٹی آئی اس پلاننگ سے غافل ہے یا ان کو پریشانی نہیں ہے ۔ یہ جو تارکین وطن کو ووٹ کا حق اور ای ووٹنگ کا شور ہے اس کے بڑے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ کیونکہ 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 88 لاکھ کے قریب پاکستانی آباد ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں ان میں اضافہ بھی ہوا ہو گا ۔ اور کمی بھی ہوئی ہو گی ۔ ان میں چند لاکھ پاکستانی وہ بھی ہوں گے جن کے کاغذات کا مسئلہ ہو گا ۔ جو بطور ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ نہ کر سکیں۔ اب آپ اندازہ لگائیں تو کم و بیش چالیس سے پچاس لاکھ نئے ووٹر تو ہوں گے جو بیرون ملک مقیم ہیں۔ ۔ اب گزشتہ الیکشن میں کُل ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ اکیاون ہزار ووٹ پاکستان تحریک انصاف نے حاصل کئے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ چھیانوے ہزار ووٹ حاصل کیے تھے ۔ اسی طرح سے پاکستان پیپلز پارٹی نے انہتر لاکھ ایک ہزار ووٹ حاصل کئے تھے ۔۔ یوں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے ووٹ میں چالیس لاکھ کا فرق ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے اٹھاون لاکھ جبکہ پی ٹی آئی سے ننانوے لاکھ ووٹ پیچھے ہے۔ ۔ اب اگر مقبولیت میں کمی بیشی کا حساب سامنے رکھیں تو شہروں میں مہنگائی کے باعث تحریک انصاف کا ووٹ بینک ضرور متاثر ہوا ہے۔ ۔ تو اس جمع تفریق کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی تمام تر اُمیدوں کا محور سمندر پار پاکستانی ہیں۔ اس لیے یہ حکومت ہر حال میں جائز ناجائز طریقے سے ان کو ووٹ کا حق اور سسٹم میں شامل کرنا چاہتی ہے ۔ کیونکہ صرف یہ ہی ایک واحد صورت باقی رہ گئی ہے جس کے بدولت وہ دوبارہ حکومت بنا سکتے ہیں ورنہ تو جو کارکردگی ہے اس بنیاد پر تو شاید اس بار پی ٹی آئی کے پی کے میں بھی حکومت نہ بنا سکے ۔ ۔ اسی لیے اپوزیشن جماعتیں بھی ہر قیمت پر انتخابی اصلاحات میں تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کی مخالفت کر رہی ہیں ۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ یہ ووٹ بینک کہاں جانا ہے اور یہ فیصلہ کس کے مفاد میں ہوگا ۔ ۔ اب جو بات زرداری کررہے ہیں کہ وہ جنوبی پنجاب میں نقب لگائیں گے ۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن تین سالوں میں محض سیکرٹریٹ کا لالی پاپ دیا گیا ہے ۔

۔ اگرآپ کو یاد ہو تو جس وقت جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنا کر جنوبی پنجاب کے سیاستدان تحریکِ انصاف سے بالواسطہ طور پر منسلک ہوئے تھے تو تحریکِ انصاف کی ایک لہر موجود تھی۔ لوگ ایک نئی سیاسی جماعت کو آزمانے کے موڈ میں تھے۔ تبدیلی کا نعرہ اپنا اثر دکھا رہا تھا۔ اس پر جنوبی پنجاب سے تحریکِ انصاف کو ایک بڑی فتح ملی تھی۔ پر اب صورتحال یہ ہے کہ شاید تحریک انصاف جنوبی پنجاب سے اپنی جیتی ہوئی نشستیں حاصل نہ کر سکے۔

۔ زرداری نے اس چیز کو پڑھ لیا ہے کہ جنوبی پنجاب محاذ کے ارکان مجبوری میں اس حکومت کی طرف سے وعدے وفا نہ ہونے پر نئی منزلوں کی طرف اڑان بھریں گے۔ ان کا خیال ہے کہ جنوبی پنجاب محاذ کے ارکان کی بڑی تعداد ان کے ساتھ آسکتی ہے۔ ۔ اس کا اشارہ جہانگیر ترین نے بھی صحافیوں کے گروپ کے ساتھ ملاقات میں دیا تھا۔ اگرچہ انہوں نے پیپلز پارٹی کو آپشن نہیں کہا تھا لیکن مسلم لیگ ن سمیت تمام آپشنز کھلی رکھنے کا اعتراف کیا تھا۔۔ یہاں آپکو یاد کروا دوں کہ جنوبی میں زیادہ تر electables ہیں ۔ جن کو الیکشن جیتنے کے لیے کسی پارٹی کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ ہی electables جب ن لیگ میں گئے تھے تو ان کی حکومت بن گئی تھی اور جب یہ ہی گزشتہ الیکشن میں ہجرت کرکے پی ٹی آئی میں گئے تو ان کی حکومت بن گئ تھی ۔۔ شاید اسی لئے زردری کو یہ امکان نظر آتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب سے صوبائی اسمبلی میں نقب لگائی جا سکتی ہے۔ ایسا ہوگیا تو یہ ایک بہت بڑا کرشمہ ہوگا۔۔ سندھ کی نشستوں کے ساتھ پنجاب اور کے پی سے کچھ نشستیں اگر پیپلز پارٹی کو مل گئیں تو اگلے الیکشن میں مرکز میں پیپپلز پارٹی کی پوزیشن بہتر ہوسکتی ہے۔ پنجاب میں ان کی توجہ کا مرکز جنوبی پنجاب ہے۔ جہاں تک ۔۔۔ کے پی کے ۔۔۔ کی بات ہے تو ماضی بتاتا ہے کہ کے پی کے عوام کسی بھی حکومت کو زیادہ عرصہ تک مسلط نہیں رہنے دیتے۔۔ یوں جنوبی پنجاب اور کے پی کے سے اگر آصف زرداری کی توقعات پوری ہو جائیں تو اگلے الیکشن میں وفاق پر کنٹرول کا خواب پورا کرنا آصف علی زرداری صاحب کی سیاسی جادوگری کیلئے مشکل مہم نہیں ہوگی۔ یوں اگر پیپپلز پارٹی اگلے الیکشن میں 90کے قریب سیٹیں لینے میں کامیاب ہوجائے تو وہ جوڑ توڑ کرکے ، ق لیگ ، جے یو آئی دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر بآسانی وفاق میں حکومت بنا سکتی ہے ۔

۔ اس لیے فی الحال جنوبی پنجاب کے امیدواروں پر ’’باریک بینی سے کام‘‘ شروع کئے جانے کی اطلاعات نے حکومتی کیمپوں میں تھرتھلی مچائی ہوئی ہے ۔ اب لگتا ہے کہ وہ بات جو عمران خان نے چیئرمین سینیٹ کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورت حال میں سوچی مگر دبا لی۔ اس نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے اور قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے عمران خان کی جماعت اندر خانے کام کرنے میں مصروف ہے ۔ یوں تحریک انصاف کو وعدے پورے نہ کرنے پر جنوبی پنجاب میں جو نقصان اٹھانا پڑے گا اور اس کا جو ووٹ بینک متاثر ہوگا۔ اس کا اندازہ اگلے الیکشن میں ہوجائے گا ۔

Leave a reply