لاہور: عاصم سلیم باجوہ وزیراعظم کے معاون خصوصی تونہیں‌ رہے:کیا چیئرمین سی پیک اتھارٹی بھی نہیں رہے ؟اہم سوالات ،مدلل جوابات ،اطلاعات کے مطابق اس وقت ملک بھرمیں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دے دے دیا لیکن کیا اب وہ سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین بھی نہیں‌ رہے ، اس حوالے سے ایک دلچسپ اوراہم بحث اب زیربحث ہے ،

چند دن قبل احمد نورانی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے اسی وقت اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو پیش کردیا تھا لیکن وزیراعظم نے کام جاری رکھنے پرزوردیتے ہوئے استعفیٰ منظور کرنے سے انکار کردیا ، وزیراعظم کے اس بیان سے کہ آپ فی الحال کام جاری رکھیں اس سے ہی ظاہر ہوگیا تھا کہ مستقبل قریب میں سنگین الزامات کی وجہ سے اس عہدے سے استعفیٰ لے ہی لیا جائے گا

باغی ذرائع کے مطابق پھر ہوا بھی یہی کل لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے وزیراعظم کواستعفیٰ پیش کیا جوانہوں نے فورآ منظورکرلیا ، جس کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ توچئیرمین سی پیک اتھارٹی بھی نہیں رہے کیوںکہ ان کی تعیناتی ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہوئی تھی جس کی مدت کافی پہلے ہی ختم ہوچکی ہے ،

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ پاک فوج کے اعلیٰ آفیسر کے طور پر قوم کیلئے خدمات سرانجام دیتے رہےلیکن کیا لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے عہدے پر برقرار رہ سکیں گے؟َ

 

 

 

آئیے اِسی سوال کے مختلف زاویوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی غور کرتے ہیں کہ بطور چیئرمین سی پیک اتھارٹی عاصم سلیم باجوہ نے ملک کیلئے کیا خدمات سرانجام دیں؟ اور ان پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات جنہیں انہوں نے سختی سے رد کیا، وہ کیا ہیں۔

عاصم سلیم باجوہ بطور چیئرمین سی پیک اتھارٹی اور قانونی مینڈیٹ، اپنوں اوربیگانوں کے خوبصورت تجزئیے !
بعض تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ قانونی طور پر چیئرمین سی پیک اتھارٹی نہیں رہے کیونکہ وہ آرڈیننس جس کے تحت سی پیک کو قانونی تحفظ دیا گیا، ختم ہوگیا ہے۔

 

 

انتظامی بنیادوں پر تو لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کوئی الگ نہیں کرسکتا لیکن قانونی طور پر سی پیک اتھارٹی اب قانونی مینڈیٹ کے بغیر کام کرے گی۔

آئینِ پاکستان کے تحت اتھارٹیز قائم کرنے کیلئے پارلیمنٹ کی طرف سے قانون سازی ضروری ہوتی ہے جس کیلئے انتظامی ہدایت نامے عموماً جاری نہیں کیے جاتے۔

قبل ازیں چیئرمین سی پیک اتھارٹی نے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے خود عوام کو آگاہ کیا کہ وزیرِ اعظم نے بطور معاونِ خصوصی ان کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کو کوئی سرکاری عہدہ حاصل نہیں ہے

 

 

سابق اٹارنی جنرل اور قانونی ماہر عارف چوہدری اس استعفے سے قبل ہی کہہ چکے ہیں کہ گذشتہ سال اکتوبر میں وجود میں آنے والی سی پیک اتھارٹی تقریبا پچھلے کئی ماہ سے بغیر کسی قانونی کور کے فرائض سر انجام دے رہی ہے کیوں کہ وفاقی حکومت ملک کی معاشی ترقی سے جڑے اس اہم ادارہ کے قیام اور سرگرمیوں سے متعلق پارلیمان میں قانون سازی نہیں کروا پائی ہے۔

دوسری طرف وزارت قانون اوراسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے بعض افسران کا کہنا ہےکہ سی پیک اتھارتی ایک آرڈیننس پرچل رہی تھی اس آرڈیننس کی مدت ختم ہوچکی ہے اور اب ادارے کو کوئی قانونی کور حاصل نہیں۔ سی پیک اتھارٹی کا قیام صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ عمل میں لایا گیا تھا۔

 

 

یہ بات بھی یاد رے کہ وفاقی حکومت نے سی پیک اتھارٹی کے قیام اور کام کرنے سے متعلق مستقل قانون کا بل قومی اسمبلی میں پیش تو کیا ہوا ہے۔ لیکن اس پر بحث یا منظوری کے سلسلہ میں کوئی پیش رفت منظر عام پر نہیں آئی۔’ایسی صورت حال میں سی پیک اتھارٹی کی موجودگی اور کام کرنے کو غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے۔

سی پیک اتھارٹی کے قیام پرتنقید کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کے مطابق پارلیمان سے منظور شدہ قانون کی غیر موجودگی میں سی پیک اتھارٹی فعال ادارہ نہیں ہو سکتا۔ اور سی پیک کا کوئی بھی اقدام اور خرچہ غیر قانونی ہو گا۔

 

احسن اقبال کے اس اعتراض کے جواب میں عارف چوہدری کہتے کہ کسی فعال سرکاری ادارہ کے قیام سے متعلق بنیادی قانون کی عارضی غیر موجودگی کو زیادہ اہمیت کا حامل نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق اسپیکر ایاز صادق کے مطابق سی پیک اتھارٹی کا آرڈیننس قانونی طور پر ختم ہوچکا ہے

پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کا کہنا تھا کہ جب تک اس مسئلہ کو باقاعدہ کسی مناسب فورم پر اٹھایا نہیں جاتا تو ادارہ کی سرگرمیاں قانونی ہی سمجھی جائیں گی۔

یہ بات بھی قابل غورہونی چاہیے کہ پاکستان تحریک انصاف حکومت نے چین پاکستان معاشی راہداری کے تحت ترقیاتی سرگرمیوں کا دائرہ کار بڑھانے اور زیادہ موثر بنانے کے واسطہ گذشتہ سال ایک نیا ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

 

ابتدائی طور پر سی پیک اتھارٹی کا قیام صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ عمل میں لایا گیا۔ اور صدر ڈاکٹر عارف علوی نے 5 اکتوبر کو چین پاکستان اکنامک کوریڈور اتھارٹی آرڈیننس 2019 پر دستخط کیے۔

وزارت قانون کے افسر نے کہا کہ سی پیک کی اہمیت کے باعث ایک ادارہ کی فوری ضرورت محسوس کی گئی۔ اور چونکہ اس وقت پارلیمان کے کسی ایوان نہیں ہو رہا تھا اس لیے آرڈیننس کے ذریعہ اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

 

 

آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کی عمر 120 روز ہوتی ہے۔ اور یوں سی پیک اتھارٹی آرڈیننس 2019 کی معیاد فروری 2020 میں ختم ہونا تھی۔

آئین کے تحت کسی صدارتی آرڈیننس کو دوبارہ 120 روز (یا چار مہینوں) کے لیے جاری کرنے کے واسطہ منظوری صرف قومی اسمبلی سے ہی لی جا سکتی ہے۔ اور اس (دوسری) معیاد کے ختم ہونے کی صورت میں صدارتی آرڈیننس خود بخود معطل ٹھرتا ہے۔

وفاقی حکومت نے سی پیک اتھارٹی آرڈیننس 2019 کی پہلی معیاد ختم ہونے سے قبل ہی اتھارٹی سے متعلق مستقل قانون بنانے کی غرض سے بل 30 جنوری کو قومی اسمبلی کے سامنے رکھا۔

حزب اختلاف نے بل کی شدید مخالفت کی اور اس پر غور یا بحث کرنے سے انکار کر دیا۔تاہم اسی اجلاس نے سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کی مزید ایک سو بیس دنوں کے لیے منظوری دے دی۔

 

دوبارہ منظوری پانے والے سی پیک اتھارٹی آرڈیننس 2019 کی عمر کے 120 روز 29 مئی کو پورے ہو گئے ہیں۔ اور آرڈیننس خود بخود ختم ہو گیا ہے۔

یوں گذشتہ 135 روز سے سی پیک اتھارٹی کے وجود اور کام سے متعلق ملک میں کوئی فعال قانون موجود نہیں ہے۔ اور اس طرح یہ اہم معاشی ادارہ بغیر کسی قانونی کور کے کام کر رہا ہے۔

 

 

عارف چوہدری اس اعتراض کا جواب کچھ اس طرح دیتے ہیں کہ اگرچہ کسی بھی آرڈیننس کی دو عمریں گذر جانے کے بعد اس کے تحت قائم کوئی ادارہ غیر فعال ہو جاتا ہے۔ اور قانون کی نظر میں سی پیک اتھارٹی کا وجود تو ختم ہو چکا ہے۔ لیکن جب تک اس مسئلہ کو باقاعدہ کسی مناسب فورم پر اٹھایا نہیں جاتا ادارہ کی سرگرمیاں قانونی تصور ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں کئی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے۔ صدارتی آرڈیننسز کی معیاد ختم ہونے کے باوجود ان کے تحت کام ہوتا رہا ہے۔ اور باقاعدہ قوانین بعد میں وجود میں آئے۔اس سلسلہ میں انہوں نے مسلم فیملی لا، حدود قوانین اور نیب آرڈیننسز کی مثالیں دیں۔

 

 

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک اتھارٹی آرڈیننس 2019 کے متبادل قانون کے آنے تک اسی کو ڈی فیکٹو قانون سمجھا جائے گا۔ اور سی پیک اتھارٹی کی تمام سرگرمیاں اسی آرڈیننس کے تحت درست سمجھی جائیں گی۔

 

 

سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کیا ہے ؟

آرڈیننس کے مسودے کے آرٹیکل تین کے مطابق سی پیک اتھارٹی چیئرپرسن، چیف ایگزیکٹو آفیسر، ایگزیکٹو ڈائریکٹرز (آپریشنز)، ایگزیکٹو ڈائریکٹر (ریسرچ) اور چھ ارکان پر مشتمل ہو گی۔

ان تمام عہدوں پر تعیناتیوں کا اختیار وزیر اعظم کو حاصل ہو گا۔ تعیناتی کی مدت چار سال ہو گی جس میں ایک بار توسیع بھی کی جا سکے گی۔

 

 

آرٹیکل تین کی شق چھ میں یہ تو واضح کیا گیا ہے کہ اتھارٹی کا چیف ایگزیکٹو آفیسر گریڈ 20 کا سرکاری ملازم ہو گا جسے ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا جائے گا، تاہم شق سات میں چیئرپرسن، ایگزیکٹو ڈائریکٹرز اور ارکان کی قابلیت، تجربے اور تعیناتی کے لیے شرائط و ضوابط قواعد (رولز) میں طے کرنے کا کہا گیا ہے۔

 

 

اتھارٹی کے فرائض اور اختیارات
چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور آرڈیننس 2019 کے تحت قائم ہونے والی اتھارٹی کا دائرہ کار پورے پاکستان تک محیط ہوگا۔ اتھارٹی وزارت منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرے گی۔

 

اتھارٹی کو اختیار ہو گا کہ وہ ٹھیکے کر سکے، جائیداد خرید سکے، کسی پر مقدمہ کر سکے یا اپنے خلاف کسی مقدمے کا دفاع اپنے نام سے کر سکے۔ سی پیک اتھارٹی کا ہیڈ آفس اسلام آباد میں ہو گا۔

آرڈیننس کے آرٹیکل چار کے مطابق اتھارٹی سی پیک معاہدوں کے تحت جاری منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لینے اور چین کے ساتھ نئے منصوبوں کے بارے میں تجاویز دے سکے گی۔

 

 

اتھارٹی پاکستان اور چین کے درمیان قائم مشترکہ تعاون کمیٹی اور مشترکہ ورکنگ گروپس کے اجلاس بلانے کے لیے رابطہ کار کا کام کرے گی۔سی پیک اتھارٹی منصوبوں سے متعلق سرگرمیوں کے بارے میں بین الصوبائی اور بین الوزارتی روابط یقینی بنائے گی۔

سی پیک اتھارٹی کا اجلاس چار ماہ میں ایک بار ہونا لازمی ہو گا۔ اجلاس بلانے کا اختیار چیئرپرسن کے پاس ہو گا، تاہم دیگر تین ارکان کی تحریری درخواست پر اجلاس ہفتے کے پانچ ورکنگ دنوں میں کسی وقت بھی بلایا جا سکتا ہے۔

سی پیک اتھارٹی کے فیصلے کثرت رائے سے ہوا کریں گے جبکہ اتھارٹی اپنے کورم کا فیصلہ خود کرے گی۔

 

بجٹ، فنانس اور آڈٹ
سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کے آرٹیکل نو کے تحت اتھارٹی اپنا سالانہ بجٹ خود تیار کرے گی اور اس مقصد کے لیے اتھارٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ارکان پر مشتمل تین رکنی ’بجٹ کمیٹی‘ تشکیل دی جائے گی۔ بجٹ کمیٹی فنڈز کے قواعد کے تحت استعمال کو یقینی بنائے گی۔اتھارٹی کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کی منظوری بھی بجٹ کمیٹی سے لینا لازم ہو گا۔

 

 

اتھارٹی کے تمام اکاؤنٹس کا آڈٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کریں گے جبکہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کمیٹی کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہوں گے۔آرٹیکل دس میں کہا گیا ہے کہ سی پیک منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے ’سی پیک فنڈ ‘ قائم کیا جائے گا۔

یہ فنڈ اتھارٹی کو ملنے والی گرانٹس، اتھارٹی کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم، قرضہ جات اور سرکار کی جانب سے مختص کی گئی رقم پر مشتمل ہو گا۔

 

 

اتھارٹی سی پیک بزنس کونسل قائم کرے گی جو اس کے قیام کے مقاصد کے حصول میں معاونت کرے گی۔آرٹیکل سولہ کے مطابق اتھارٹی اپنی سرگرمیوں اور کارکردگی پر مشتمل سالانہ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرنے کی پابند ہو گی۔

مفادات کا ٹکراؤ
سی پیک اتھارٹی کے لیے آرڈیننس کی شق چھ میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی ایسے فرد کو چیئرپرسن، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، یا رکن تعینات نہیں کیا جا سکتا جس کے سی پیک میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مفادات ہوں یا اس کی تعیناتی سے اس سے جڑے کسی بھی فرد کے مفادات پورے ہوتے ہوں۔

آرڈیننس کا اہم نقطہ!
کس بھی ایسے فرد کو اتھارٹی کا حصہ نہیں بنایا جائے گا جس کے کسی ایسے فرد سے تعلقات ہوں جس کے مالی مفادات سی پیک منصوبوں سے وابستہ ہوں۔

 

 


اتھارٹی کے چیئرپرسن، چیف ایگزیکٹو آفیسر، ایگزیکٹو ڈائریکٹر یا کوئی بھی رکن اپنی تعیناتی کے عرصے کے دوران کسی دوسری جگہ نوکری یا کوئی اور کاروبار نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی اپنی خدمات کسی فرد یا ادارے کو فراہم کر سکیں گے۔

 

 

پاک چائنہ اقتصادی کوریڈور کیا ہے؟
اس منصوبے کے تحت پاکستان میں جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں گہرے سمندری پانیوں والی گوادر کی بندرگاہ کو چین کے خود مختار مغربی علاقے سنکیانگ سے جو‌ڑا جائے گا۔

تین ہزار کلومیٹر طویل اس منصوبے کے تحت مستقبل میں گوادر اور سنکیانگ کے درمیان نئی شاہراہوں اور ریل رابطوں کی تعمیر کے علاوہ گیس اور تیل کی پائپ لائنیں بھی بچھائی جائیں گی۔

 

 

ابتدا میں اس منصوبے پر اٹھنے والی لاگت کا تخمینہ 46 بلین ڈالر کے برابر لگایا گیا ہے اور یہ پروجیکٹ کئی مرحلوں میں 2030ء تک مکمل ہو گا۔ اس منصوبے کے لیے زیادہ تر رقوم چینی سرمایہ کاری کی صورت میں مہیا کی جائیں گی لیکن ان مالی وسائل میں وہ نرم قرضے بھی شامل ہوں گے، جو بیجنگ حکومت اسلام آباد کو فراہم کرے گی۔

سی پیک کا تصور کس نے پیش کیا ؟

 

 

 

مئی 2013 میں چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران سی پیک کی تجویز پیش کی جس کو فوری طور پر پاکستانی حکومت کی جانب سے مثبت ردعمل اور اہمیت دی گئی۔ جولائی 2013 میں اس سلسے میں ایک مفاہمت نامے پر دستخط ہوئے۔ اب تک بڑے اوراہم منصوبوں پر عمل در آمد کا سلسلہ موثر طریقے اورتسلسل سےجاری ہے مزید بر آں یہ خوش اسلوبی سے تعمیرو ترقی کے سفر پر گامزن ہے۔سی پیک پر وقت کے ساتھ ساتھ مکمل منصوبہ بندی سے عمل در آمد کیا جا رہا ہے نیز یہ چین اور پاکستان کے مابین دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔

 

 

سی پیک کوچین اورپاکستان کی سدا بہار سٹریٹیجک شراکت داری کو مستحکم کرنے اور مشترکہ تعمیر وترقی کی منازل طے کرنے کے سفر میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سی پیک ایک نئی جہت اور نئے وژن کے ساتھ پاک چین تعلقات کو جلا بخشنے کا موجب بن رہا ہے۔ سی پیک سے مجموعی طور پر پورا پاکستان استفادہ حاصل کرے گااور اس سے پاکستانی عوام کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔سی پیک سے پاکستان کی معاشی اور معاشرتی ترقی کو موثر انداز میں فروغ ملے گا۔ سی پیک کی تعمیر سے چین اور پاکستان کی ترقیاتی حکمت عملی میں روابط فروغ پانے کے ساتھ ساتھ انضمام میں بھی اضافہ ہوگا جس میں دونوں ملکوں کے عوام کا مفاد پوشیدہ ہے۔ اسی طرح سی پیک کے تحت دونوں فریق ممالک معیاری اور جامع حکمت عملی کے ساتھ تعمیر و ترقی اور متعدد بڑے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لئے پرعزم ہیں جس کے مثبت نتائج حاصل ہورہے ہیں اور چین اور پاکستان کے علاوہ خطے کے دوسرے ممالک کے لوگوں کو بھی اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔

 

 

سی پیک کی تعمیر کے اصول کیا ہیں؟
ایک بڑے اور منظم منصوبے کے طور پر سی پیک کی تعمیر کا سفر 2030-2017پر محیط ہے۔ سی پیک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے چین اور پاکستان کی حکومتوں ، کمپنیوں اور تمام سماجی شعبوں کی مشترکہ اور ان تھک کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کی تعمیر کے عمل میں دونوں فریقوں نے سائنسی منصوبہ بندی کے اصولوں، تسلسل سے عمل درآمد ، مشاورت کے ذریعے اتفاق رائے ، باہمی فائدے اور وِن-وِن ریزلٹس کے ساتھ ساتھ معیار اور حفاظت کو یقینی بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ دونوں فریقوں نے ترجیحی یا ارلی ہارویسٹ منصوبوں کی فہرست مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ سی پیک کے لئے طویل المدتی منصوبہ بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ ترجیحی یا ارلی ہارویسٹ منصوبوں سے مراد وہ منصوبے ہیں جو 2018 یا 2020 (ہائیڈرو پاور پراجیکٹس) سے پہلے مکمل ہوجائیں گے۔ سی پیک ایک طویل المدتی منصوبہ بندی پر محیط منصوبہ ہے جس کی مکمل طور پر تکمیل 2030کو ہو جائے گی۔ سی پیک کی منصوبہ بندی اور تعمیر کے عمل میں دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کو رہنمائی فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور کمپنیوں کو مارکیٹ کے قوانین کے مطابق سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔مزید بر آں دونوں حکومتیں اور کمپنیاں کام کی واضح تقسیم کے ساتھ ساتھ باہمی تعاون کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ مستقل میں سی پیک کی ترقی کو فروغ دیا جاسکے

 

 

سی پیک کون کون سے شعبوں کا احاطہ کرتا ہے؟
پاکستان اور چین نے دو فریقین کے طور پر خصوصی اقتصادی تعاون کو “1 + 4” کےخاکہ کے طور پر فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے جس میں سی پیک کے مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ گوادر بندرگاہ ، توانائی ، نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے اور صنعتی تعاون سمیت چار اہم شعبوں کو ملحوِظ نظر رکھا گیا ہے تاکہ وِن-وِن نتائج اور مشترکہ ترقی کو فروغ دیاجاسکے۔ درمیانی مدت سے طویل المدتی منصوبہ بندی میں دونوں فریقین فنانشل سروسز، سائنس و ٹیکنالوجی ، سیاحت ، تعلیم ، غربت کے خاتمے اور سٹی پلاننگ جیسے شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے مواقع تلاش کریں گےاوروقت کے ساتھ ساتھ اس میں توسیع کریں گے تاکہ چائینہ-پاکستان آل راؤنڈکوآپریشن کے دائرہ کار میں مزید توسیع کی جاسکے۔

سی پیک کے تعاون کا طریق کار کیا ہے؟
سی پیک منصوبہ کے سفر کو خوش اسلوبی اور موثر طریقے سے آگے بڑھانے کے لئے چین اور پاکستان نے جوائینٹ کوآپریشن کمیٹی (جے سی سی) تشکیل دی ہے۔ جوائینٹ کوآپریشن کمیٹی کے تحت پانچ جوائینٹ ورکنگ گروپس ہیں جن میں طویل المدتی منصوبہ بندی ، توانائی ، ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر ، صنعتی تعاون اور گوادر بندرگاہ شامل ہیں۔ جے سی سی کے سیکریٹریٹ بالترتیب چین کے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن اور پاکستا ن کی وزارت منصوبہ بندی ترقی اور اصلاحات میں موجود ہیں۔ یہ دونوں سکریٹریٹ سی پیک پر عملد رآمد کے ذریعے سے تعمیر و ترقی کے سفر کو آگے بڑھانے کے لئے وزارتوں کے ساتھ بات چیت اور ہم آہنگی کے ذمہ دار ہیں۔جوائینٹ کوآرڈنیشن کمیٹی سی پیک کی مجموعی منصوبہ بندی اور دو طرفہ تعاون کو فروغ دیتی ہے جبکہ جوائینٹ ورکنگ گروپس منصوبوں کی نوعیت کے اعتبار سے موثر منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے ذمہ دار ہیں۔ جنوری 2020 تک جوائینٹ کوارڈنیشن کمیٹی کے9 اجلاس بلائے گئے ہیں اورسی پیک سے متعلق کئی امور کو مشترکہ طور پر آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہےجبکہ یہ کمیٹی سی پیک کی تعمیر کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔

 

سی پیک کے تحت گوادر بندرگاہ میں کیا پیشرفت ہوئی ہے؟
سی پیک کے جنوبی سرے میں سمندری دہانے پر واقع گوادر بندرگاہ میگا پراجیکٹ کے اہم منصوبوں میں سے ایک ہے۔ چائینہ اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ (سی او پی ایچ سی) نے بندرگاہ میں سہولیات کی بہتری اور توسیع کا کام سر انجام دیا ہےاور اب اس بندرگاہ نے اپنی ڈیزائن کردہ صلاحیت کو بحال کردیا ہے۔ کارگو لائنرز 2016 کے وسط سے ہر ماہ بندرگاہ پہنچ رہے ہیں۔ 13 نومبر 2016 کو گوادر بندرگاہ میں سی پیک پائلٹ پراجیکٹ کا پہلا تجارتی کانوائی کی آمد پرتقریب کا انعقاد ہوا۔ اس دوران چین پاکستان کا مشترکہ ٹرکوں کا قافلہ دونوں ممالک سے سامان لے کر گوادر بندرگاہ پہنچا۔ یہ پہلاموقع تھا کہ جب تجارتی قافلہ کامیابی کے ساتھ شمال سےجنوبی حصے کے ذریعے سے پاکستان کے مغربی خطہ پہنچا۔آج گوادر پورٹ بڑی تعداد میں کنٹینر بیرون ممالک کو برآمد کررہا ہے۔یاد رہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب چین اور پاکستان نے مشترکہ تجارتی کانوائی کے ذریعے سے پاکستان کے رستےسے گوادر بندرگاہ کا راستہ طے کیا اور اس بندرگاہ میں سہولیات کی فراہمی کے نظام کو بھی ایک نئی جہت سے روشناس کیا۔

 

 

چین اور پاکستان ایسٹ بے ایکسپریس وے منصوبے اور نیو گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اپنی مشترکہ کاوشوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ گوادر سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان کو عملی جامع پہنانے کے لئے دونوں فریق مل کر کام کر رہے ہیں۔سی پیک کے تحت مقامی لوگوں کی معیارِ زندگی کو بہتر بنانے خصوصاََ تعلیمی اور طبی منصوبوں کے ذریعے سے بہتری کی کوششیں کی گئی ہیں۔خاص طور پر فقیر کالونی میں پاک-چائینہ فرینڈشپ پرائمری سکول ، گوادر ، گوادر اسپتال ، گوادر ووکیشنل کالج ، اور واٹر ڈسیلی نیشن پلانٹ جیسے منصوبے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیے گئے ہیں ۔

 

سی پیک کے تحت توانائی کے شعبے میں کیا پیشرفت ہوئی ہے؟
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ توانائی کا شعبہ اقتصادی ترقی کے لئے طاقت کاسر چشمہ ہوتا ہے اور پاکستان کی معیشت کی پائیدار ترقی بھی توانائی کے شعبے پر ہی منحصر ہے۔ پاکستان میں چائینہ-پاکستان اقتصادی راہداری کے آغاز سےتوانائی منصوبوں کی تعمیر میں تیزی آئی اور آج اس میگا پراجیکٹ کے ثمرات کے سبب پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے ذریعے سے پائیدار ترقی کے حصول میں مدد ملی ہے۔سی پیک فریم ورک کے تحت دونوں فریقوں نے 16 منصوبوں کو اہم ترجیحات کا حصہ بنایا ہے جبکہ 5 پر منصوبہ بندی جاری ہے ا ن تمام کی مجموعی طور پر توانائی کی پیداوار 17045 میگاواٹ ہوگی۔ سی پیک کے تحت اہم ترجیحات میں شامل 16 منصوبوں میں سے 9 منصوبوں کو فعال کرکے نیشنل گرڈ میں شامل کیا گیا ہے جبکہ بقیہ پر کام کی پیش رفت جاری ہے۔

 

 

2019 کے اختتام تک تکمیل شدہ توانائی کے منصوبوں میں بہاولپور پنجاب کا 400 میگاواٹ قائداعظم سولر پارک، 50 میگاواٹ داؤد ونڈ فارم، سچل 50 میگاواٹ ونڈ فارم ، پورٹ قاسم 2 × 660 میگاواٹ کول فائرڈ پاور پلانٹ ، ساہیوال 2 × 660 میگاواٹ کول فائرڈ پاور پلانٹ ، 660 میگاواٹ حبکو کول پاور پلانٹ ، 100 میگاواٹ جھمپیر یو ای پی ونڈ فارم ، چائنا تھری گورجیز سیکنڈ اینڈ تھرڈونڈ پاور پراجیکٹ اور 2 × 330 میگاواٹ اینگرو تھر کول پاوراینڈ مائن پراجیکٹ شامل ہے۔جبکہ 870 میگاواٹ کے سکی کناری ہائیڈرو پاور اسٹیشن ،1320میگاواٹ تھر بلاک ون،330حبکو تھر کول پاور پراجیکٹ،330تھل نووا تھر کول پاور پراجیکٹ بلاک ٹو ،720میگاواٹ کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ، 600 میگاواٹ قائداعظم سولر پارک اور مٹیاری (پورٹ قاسم) سے لاہور ٹرانسمیشن لائن جیسے منصوبوںکی پیش رفت جاری ہے۔علاوہ ازیں1124 کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 300 میگاواٹ گوادر کول پراجیکٹ ، 1320میگاواٹ تھر کول پراجیکٹ بلاک-سکس ،50میگاواٹ کاچو ونڈ پاور پراجیکٹ اور50میگاواٹ ویسٹرن انرجی پرائیوٹ لمیٹڈ وِنڈ پاور پراجیکٹ بھی منصوبہ بندی میں شامل ہیں۔

سی پیک کے تحت نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں کیا پیشرفت ہوئی ہے؟
اقتصادی ترقی کے لئے موثر اور تیز تر نقل و حمل کا نیٹ ورک انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سی پیک یقینی طور پر پاکستان میں شمال-جنوبی راہداری کی راہ ہموار کرے گا۔ پہلےسے موجود روڈ نیٹ ورک کو استعمال میں لاکر اورمنقطع روابط کی بحالی کو یقینی بنا کر ترجیحی بنیادوں پر سائنسی اصولوں کی حامل منصوبہ بندی کی گئی ہے اس وقت انفراسٹریکچر کے15000ملین ڈالر کی لاگت کے 6 ارلی ہارویسٹ پراجیکٹس میں سے سکھر-ملتان موٹروے(ایم-5)تکمیل کے مرحلے کو پہنچا ہے جبکہ شاہراہِ قراقرم کا تھاکوٹ-حویلیاں سیکشن تکمیل کے بالکل قریب ہے۔علاوہ ازیں ایسٹ بے ایکسپریس وے گوادراورنیو گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ زیرِ تکمیل ہیں نیزڈی آئی خان-ژوب موٹروے اور ایم ایل ون ریلوے پر متعلق امور جے سی سی کی نویں میٹنگ میں نمٹانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 15000ملین ڈالر کی لاگت کے 5سی پیک انفراسٹریکچر پراجیکٹس شامل ہیں جن میں سے لاہور-ملتان موٹروے،سہراب-خوشاب اورگوادار-تربت –خوشاب تکمیل کے مرحلے کو پہنچے ہیں جبکہ ہکلہ-ڈی آئی خان موٹروے اورژوب-کوچلک ایکسپریس وے پر کام کی پیش رفت جاری ہے۔

سی پیک کے تحت سرمایہ کاری اورصنعتی تعاون کے شعبے میں کیا پیشرفت ہوئی ہے؟
صنعتی تعاون سی پیک کا ایک اہم ترین شعبہ ہے۔ دونوںممالک کے درمیان اقتصادی تعاو ن کو وسعت دینے اور بڑھانے کے ساتھ ساتھ ترقی کی نئی راہیں ہموار کرنے کے لئے صنعتی تعاون نہایت اہمیت کی حامل ہے۔یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس شعبےمیں تعاو ن کے فروغ کے بڑے مواقعوں کو بروئے کار لاکرروشن مستقبل کو یقینی بنیایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں چین کو تجربہ ، ٹیکنالوجی ، فنانسنگ اور صنعتی صلاحیتوں کا امتیاز حاصل ہے جبکہ پاکستان اپنے وسائل ،افرادی قوت اور مارکیٹ کے سازگار حالات سے استفادہ حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک صنعتی تعاون کو مزید فروغ دینے کے لئے آگے بڑھ کر باہمی مفاد ات اور وِ ن ٹو وِن نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

اسی طرح سی پیک کے فریم ورک کے تحت دونوں ملکوں نے دو صنعتی تعاون کےمنصوبوں کاآغاز کیا جن میں ہائیر- روبا اکنامک زون (2006)فیز ٹو اور گوادر فری زون شامل ہیں۔ یکم ستمبر 2016 کو گوادر فری زون کی سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں تاجر برادری کی سی پیک کی جانب توجہ مبذول ہوئی۔ سی پیک فریم ورک کے تحت چائینہ اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ (سی او پی ایچ سی)نے گوادر فری زون کی تعمیر کو یقینی بنایاہے۔ چین اپنے دیرینہ دوست اور فریق ملک پاکستان کو اعلی معیار کی صنعتی صلاحیتیں فراہم کرنے اور معروف چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دینے کا خواہاں ہے۔ دریں اثنا پاکستان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خصوصی اقتصادی علاقوں کے مقامات کا خوش اسلوبی اور سوچ و بچار کے ساتھ تعین کرے گااور ان میں باہمی اتفاق رائے والے خصوصی اقتصادی علاقوں میں ترجیحی پالیسیاں وضع کرنے کے ساتھ ساتھ سازگار موحول اور سہولیات فراہم کرے گا۔اسی طرح دونوں فریق ممالک صنعتی تعاو ن کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ گفت و شنید کرتے رہیں ہیں اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک مرحلہ واروِن-وِن پراجیکٹس کے ذریعے سے اقتصادی اور معاشرتی فوائد حاصل کریں گے۔

چینی حکومت نے راولپنڈی سے خنجراب تک آپٹیکل فائبر کیبل بچھانے کے لئے بلا سود قرضوں فراہم کیے ہیں اور اس کی تعمیر اپریل 2016 میں شروع ہوئی۔ اس کے علاوہ متعلقہ چینی کمپنی نے پاکستان میں ڈیجیٹل ٹیرسٹریل ملٹی میڈیا براڈکاسٹ کے استعمال سے متعلق فزیبلٹی اسٹڈی کو حتمی شکل دی ہے۔ دونوں ممالک سی پیک کی طویل المدتی منصوبہ بندی پر کام کر رہے ہیں اور اس کا مسودہ مکمل ہوچکا ہے۔

پاکستان کے مغربی علاقوں میں سی پیک کے کون سے منصوبے ہیں؟
سی پیک میں مجموعی طور پر پاکستان کے لئے تعمیر و ترقی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں اور اس سے نہ صرف مغربی خطے کے عوام بلکہ پورے ملک کے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان کے مغربی علاقوں میں سی پیک کے کئی منصوبے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ مثال کے طور پر قراقرم ہائی وے (تھاکوٹ تا حویلیاں) فیز ٹو اور اور سکی کناری پن بجلی گھر خیبر پختونخوا میں واقع ہیں۔ اسی طرح چین پاکستان کراس بارڈر فائبر آپٹک کیبل پراجیکٹ اور ایم ایل 1 ریلوے اپ گریڈیشن (دسمبر 2016 ء تک زیرِ بحث فریم ورک معاہدہ) بھی خیبر پختونخوا سے گزرتا ہے۔ پشاور اور کوئٹہ کو سی پیک کی سڑکوں میں مرکزی حیثیت کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ جوائینٹ کوآپریشن کمیٹی کے پانچوی اجلاس میں منظور شدہ سی پیک ٹرانسپورٹ مونوگرافک اسٹڈی میں برہان۔ڈی۔آئی خان اور کوئٹہ تا سہراب سڑکیں شارٹ ٹرم پراجیکٹس کے طور پر شامل کیے گئے ہیں۔جبکہ گوادر پورٹ ، گوادر فری زون ، گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے ، گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ ، گوادر کول فائرڈ پاور پلانٹ اور حبکو کول فائرڈ پاور پلانٹ جیسے تمام منصوبے صوبہ بلوچستان میں ہیں۔

امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ منصوبے روزگار اور ٹیکس کی وصولی کو فروغ دینے ، صوبائی طور پرزمینی رابطہ سازی کو مستحکم کرنے ، معاشی ترقی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی معیار زندگی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔

سی پیک پاکستان کے تمام خطوں کو کس طرح بہتر فائدہ پہنچا سکتا ہے؟
چین اور پاکستان “ون کوریڈور ، ملٹیپل پیسیجز” کی بنیاد پر اتفاق رائے کر چکے ہیں جس کا مقصد پاکستان کے تمام صوبوں کی معاشی اور معاشرتی ترقی کو ٖفروغ دینا اور گوادر بندرگاہ تک موثر رابطہ سازی کی فراہمی ہے۔ مغربی روٹ یقینی طور پر سی پیک کا ایک اہم حصہ ہے۔ ابھی پاکستان کے مغربی علاقوں میں سڑک کے رابطے کوآگے بڑھانے کے لئے بے حد کوششیں کی جارہی ہیں اور چین پاکستان کے مغربی اور شمالی علاقوں میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے سازگار حالات پیدا کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ مختلف منصوبوں کے نفاذ کے ساتھ سی پیک پاکستان کے مختلف حصوں میں معاشی ترقی کو فروغ دینے اور معیار زندگی کو بلند کرنے میں تیزی سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

Shares: