لاہور:بچا لو مائی باپ۔ پی ٹی آئی امریکہ کے قدموں میں ، منتیں ترلے ملاقاتیں بڑا سیاسی طوفان آنے والا ہے، یہ کہنا ہے مبشرلقمان کا جو کہ پاکستان کے سیاسی معاملات پر بہت زیادہ دسترس رکھتے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پھر یوٹرن لینے شروع کردیئے ہیں، جوکل کو امریکہ کو برا بھلا کہتے تھے ، آج پھرامریکہ کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں، کبھی وہ کہتے تھے کہ امریکہ پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے ،

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ اب فواد چوہدری امریکی سفیر سے ملاقاتیں کررہےہیں، یہ کیا ہورہا ہے، انکا کہنا تھاکہ لگتا ہے کہ عمران خان نے اب پھر یوٹرن لے لیا ہے اور یہ یقین کرلیا ہے کہ امریکہ کےبغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتے،

اس حوالے سے مبشرلقمان نے سینیئرصحافی منیب فاروق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہاں گئے وہ دعوے جن کی بنیاد پر عمران خان نے ایک بیانیہ دیا تھا ، جس پر منیب فاروق نے کہا کہ ان لوگوں کی ذہنی حالت کیسی ہوگی کہ جو کہتے ہیں کہ ان کو بلا کر کہا گیا کہ نوازشریف چور ہے ،فلاں نے کرپشن کی اور فلاں نے ملک کو لوٹا،وہ لوگ پھر یہ باتیں اس طرح پھیلاتے رہے کہ حیرانی ہوتی ہے ، کہ یہ کیسے لوگ ہیں کس طرح‌کے صحافی ہیں کہ جو اس قسم کا بیانیہ بناتے ہیں‌

منیب فاروق کہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں‌ کہ جو یہ بیانیہ لے کرپھر وی لاگ کرتےہیں ،اورپھراس کو آگےبڑھاتےہیں، ان کو چاہیے تھاکہ وہ پہلے یہ پتہ تو کرلیتےکہ یہ جو کچھ بتایا جارہا ہے کہ یہ درست بھی ہے یا کہ نہیں ، منیب فاروق نے مزید کہا کہ پھر اس قسم کا تاثر دیا جاتا ہے کہ تھمنل بھی ایسے ایسے اپلوڈ کیے جاتے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے، منیب فاروق نےکہا کہ چلو ایسا کرنا پڑتا ہے،لیکن اس حد تک نہیں جانا چاہیے ، اس پر مبشرلقمان نے کہا کہ چلو میں ان چہروں کا بتادیتا ہوں جن میں چوہدری غلام حسین اور صابرشاکرجیسے لوگ شامل ہیں ، جس پرمنیب فاروق نے کہا کہ میں کسی کا نام نہیں لے رہا مگرایسے بہت سے لوگ ہیں

منیب فاروق کا کہنا تھا کہ پھر ایسے لوگوں کو روکا نہیں گیا ، پیسے تو کمائے ہیں ، مگرایسا نہیں کرنا چاہیے تھا،منیب فاروق نے کہا کہ جو صحافی کہتے ہیں کہ ان کو بلا بلا کر بتایا گیا کہ فلاں چور ہے اور فلاں کرپٹ ، ان کا یہ کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کو روکنا چاہیے تھا مگرروکا نہیں گیا ، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نوازشریف کی بات کرتے ہیں کہ وہ چور تھا تو جب حکومت نوازشریف کی ختم کی گئی تو اس قدر تو معاملات نہیں تھے جس حد تک بتائے جاتے ہیں

منیب فاروق کا کہنا تھا کہ جس طرح کے فیصلے کروائے گئے اور نوازشریف کو فارغ کیا گیا اور پھر عمران خان کا لایا گیا ، میں تو سوچتا ہوں کہ آخرت کو یہ جج صاحبان کیا جواب دیں گے اس پر مبشرلقمان نے کہا کہ چھوڑیں آخرت کو ، جن لوگوں کو آخرت کی فکر ہی نہیں اور وہ خود اس گھڑےمیں گررہےہیں ان کا کیا لینا دینا آخرت سے ،

 

 

مبشرلقمان نے ایک موقع پر منیب فاروق کی ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے کارکنان نے جس طرح جنرل باجوہ کے خلاف مہم چلائی یہ تو بہت ہی پریشان کن پہلو ہے، یہ ٹرولز کس طرح جنرل باجوہ کے خلاف عوام الناس کو اکساتے رہے ،جس پر منیب فاروق نے کہا کہ عمران خان جو کہ پارٹی کے سربراہ ہیں ،ان کو چاہیے تھا کہ جب وہ اقتدار میں تھے تو وہ یہ کام کردیتے ،لیکن ان کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ جنرل باجوہ کے خلاف یہ اقدام اٹھائیں کیونکہ جنرل باجوہ نے ان کے لیے بہت بڑے فیصلے کیے اور ان کو اقتدار میں لانے کےلیے بہت کچھ کیا ، دو ہزار اٹھارہ میں دیکھیں ، اس سے پہلے ہی عمران خان کےلیے سلسلہ شروع ہوچکا تھا ، ان کواقتدار میں لانے کے لیے ان کے سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لیے تمام غیر قانونی طریقے استعمال کیے گئے ، ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اس چیز کا بھی لحاظ نہیں رکھا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان نے جنرل عاصم منیرکوآرمی چیف لگانے کی مخالفت کی تھی

مبشرلقمان کا کہنا تھاکہ عمران خان نے جب عاصم منیر سے اپنے پہلے بجٹ کی منظوری کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی توانہوں نے انکار کردیا تھا کہ یہ آپ کا کام ہیں میرا نہیں ، اور کچھ کرپشن بھی سامنے لانےکی وجہ سے عاصم منیر کو تبدیل کردیا گیا تھا ، ان کا کہنا تھا کہ اس بات کے شاہد تو روکھڑی صاحب بھی ہیں جو کہ اس وقت اس سارے منظر نامے میں ساتھ تھے

منیب فاروق نے کہا کہ وہ فرح گوگی ، احسن جمیل اور مانیکا فیملی نے جوفائدے اٹھائے ہیں، اب بڑے بڑے ترجمان آجاتے ہیں ، ان کا کہنا تھا ڈی ایچ اے میں فرح گوگی کی آنیاں جانیوں سے کون واقف نہیں ، جو اختیارات اس کو حاصل تھے وہ کسی اور کونہیں تھے ، گھڑی کی طرح اور معاملات بھی ہیں جن کی چھان بین ہونا ضروری ہے ، ان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ کہہ گئے ہیں کہ عمران خان کی خاطرتین چارجرنیل بھی قربان ہوگئے ، اس پر مبشرلقمان کا کہنا تھا کہ ابھی اور بھی قربان ہونے والے ہیں ، منیب فاروق کا کہنا تھاکہ بہرکیف اب اس ملک کو چلنے دیا جائے جس طرح بھی ممکن ہو،یہ ملک اب مزید ایسے سیاسی بحرانوں کا متحمل نہیں ہوسکتا

Shares: