عورت مارچ کی اجازت سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا
عورت مارچ کے لیے طے پانے والی شرائط کو عدالتی فیصلے کا حصہ بنایا گیا ،شرائط میں کہا گیا ہے کہ آئین کیخلاف اور متنازع پلے کارڈز مارچ میں نہیں لائے جائیں گے،اگر متنازع پلے کارڈز لائے گئے تو کارروائی عمل میں لائی جائے گی، مارچ منتظمین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے کوئی متنازع تصویر یا تحریر جاری ہوئی تو کارروائی ہو گی، عورت مارچ میں اگر کوئی متنازع شخصیت آئے تو اسے نکالنے کی ذمہ داری منتظمین کی ہو گی ،لاؤڈ ا سپیکر کے غلط استعمال پر قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی ،لاہور مال روڈ پر ریلی کی اجازت نہیں ہو گی،عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا کہ عورت مارچ اور جماعت اسلامی ہماری سوسائٹی کا حصہ ہیں، دونوں معاشرے میں آگاہی کے لیے اپنے اپنے طریقے سے اقدامات کر رہے ہیں
واضح رہے کہ لاہور حکومت نے عورت مارچ کی اجازت نہیں دی تھی جس پر عورت مارچ انتظامیہ نے عدالت سے رجوع کیا تھا،درخواست گزار صباحت رضوی کی جانب سے عورت مارچ پر پابندی چیلنج کی گئی تھی ،لاہو ر ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ڈی سی لاہور کا عورت مارچ پر پابندی فیصلہ غیر قانونی ہے،عورت مارچ میں خواتین کے حقوق کی تحفظ کی بات ہوتی ہے،پر امن مارچ پر پابندی آئین کی خلاف ورزی ہے،عدالت عورت مارچ پر پابندی سے متعلق ڈی سی لاہور کا فیصلہ کالعدم قراردیا جائے،
عورت مارچ نا منظور،مردان میں "مرد مارچ” کے نعرے
مرد دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی کو گھر سے نکال دیتا ہے،وزیراعظم
تاثر غلط ہے کہ ہراسمنٹ کا قانون صرف خواتین کے لیے ہے،کشمالہ طارق
عورت مارچ کے خلاف برقع پوش خواتین سڑکوں پر آ گئیں، بے حیائی مارچ نا منظور کے نعرے
عورت مارچ پر پتھراوَ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج
حنا پرویز بٹ "عورت مارچ” کے حق میں کھڑی ہو گئیں