معروف مذہبی سکالر اور عالم دین مفتی عبدالقوی نے کہا ہے کہ عورت موذن ہو سکتی ہے
باغی ٹی وی: گذشتہ روز معروف اینکر پرسن مبشر لقمان کے ساتھ انٹر ویو کے دوران مفتی عبدالقوی نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر بات کی اور اس دوران انکشاف کیا کہ عورت اذان دے سکتی ہے
مبشر لقمان نے حال میں کئے جانے والی مفتی عبدالقوی کے نکاح کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے نکاح کی وجہ سے ٹک ٹاک سے رنگینیاں ختم ہو گئیں لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہے اور مفتی عبدالقوی نے جس سے نکاح کیا اس کر ٹک ٹاک سے روک دیا
اس پر مفتی عبدالقوی تو خود ایک رنگینی کا نام ہے میں خواتین کی آزادی کا حمایتی ہوں مخالف نہیں ہر وہ محترمہ جس سے میں نے نکاح کیا ان کو صرف میں نے ایک بات کہی ہے کہ اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے میرے معاملات کو مخفی رکھتے ہوئے آپ جو کچھ کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں مفتی قوی نے کہا کہ ہمارا آزاد ملک ہے اور آزادی بہت بڑی نعمت ہے میں تو کہتا ہوں 8 مارچ خواتین 9 مارچ مردوں اور 10 مارچ خواجہ سراوں کا ہونا چاہیے اور مفتی عبدالقوی تینوں کے اندر شرکت کرے گا انہوں نے کہا مجھے پتہ ہے جس طرح مرد حضرات میرے ساتھ محبت کرتے ہیں خواتین محبت کرتی ہیں اسی طرح خواجہ سرا بھی محبت کرتے ہیں
مفتی عبدالقوی کے مطابق اگر کوئی میرا مختصر تعارف پوچھےتو یہ ہو سکتا ہے کہ مفتی عبدالقوی وہ ہے جو سیلفی کے بھی بانی ہیں اور خواجہ سراوں کو سٹیٹس اور اہمیت دینے والے بھی مفتی عبدالقوی ہیں جب سے آپ نے دیکھا ہے کہ میرے ساتھ الماس بوبی تشریف لائی ہیں الماس بوبی صاحبہ اس وقت اپنی قریبی مسجد میں روزانہ صبح فجر کی اذان دیتی ہیں
مبشر لقمان نے سوال کیا کہ کیا فقہہ طور پر عورت کو اذان دینے کی اجازت ہے؟
مفتی عبدالقوی نے کہا کہ بالکل اجازت ہے انہوں نے کہا کہ فقہہ اور اسلام کے اندر دو صورتیں ہیں عورت اور مرد اسلام یہ چاہتا ہے کہ خواجہ سرا جو فطری طور پر پیدائشی طور پر خواجہ سرا ہیں
مبشر لقمان نے کہا کہامریکہ میں کچھ خواتین کی تصویریں آئی ہیں جو کہتی تھیں انھیں امامت کرنے ہےلیکن اس کی اجازت تو نہیں ہے چاہے عورتوں کو جتنے مرضی حقوق دے لیں امام توخاتون نہیں بن سکتی
اس پر مفتی صاحب نے کہا کہ بخاری شریف کے اندر ایک حدیث موجود ہے اور بی بی صاحبہ کا نام بھی موجود ہے کہ وہ امامت کرتیں تھیں انہوں نے کہا نمازکی ایک امامت ہے خواتین کی خواتین کے لیے ایک ایسی محترمہ امام بنیں جس کے اندر مرد اور عورتیں بھی ہوں لیکن اس میں محرم اور غیر محرم کی بات آ جاتی ہے اسلام نے پورا یہ نظام دیا ہے
انہوں نے کہا کہ محرم اور غیر محرم کا اس لیے ہمارے ہاں تسلسل کے اندر تو یہ چیز کہیں ثابت نہیں سیدہ عائشہ سیدہ فاطمہ اور بی بی رابعہ حسن بصری کسی نے بھی امامت نہیں کروائی آج تک 1500 سال کی اسلامی تاریل میں کہیں یہ ثابت نہیں کسی فقہہ میں یہ ثابت نہیں ہے لیکن اگر وہ یہ کہہ رہی ہیں کہ ام فروا کی روایت کو سامنے رکھ کر ایک محترمہ امام بن رہی ہے اور باقی خواتین مقتدی تو اس کو میں. فقہی طور پر غلط نہیں کہہ سکتا عورت امامت صرف عورتوں کی کروا سکتی ہے تاہم اگر مردوں کی امامت آجائے گی تو اس سے زیادہ اہم مسئلہ قرآن نے بتایا ہے کہ محرم اور غیر محرم کی تقسیم جب یہ بات آ جاتی ہے تو عورت امام ہو گی اور اس کے پیچھے مرد مقتدی تو شرعی طور پر یہ اسلام کے دئیے ہوئے نظام کے منافی ہے
معورف انکر مبشر لقمان نے کہا فرض کریں اگر گھر میں جوائنٹ فیملی سسٹم ہے اور اگر کوئی خاتون امامت کرواتی ہے اور پیچھے گھر کے مرد ہیں تو کیا ایسے ہو سکتا؟
مبشر لقمان کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مفتی صاحب نے کہا کہ جو عورت امامت کروا رہی ہے ان کے پیچھے گھر کی اور اہل محلہ کی عورتیں اور بچے پڑھ لیں لیکن مرد اس کے پیچھے نماز نییں پڑھ سکتا کیونکہ عقل کا تقاضا نھی یہی ہے کہ اسلام نے مرد کوامامت کے حوالے سے بالا دستی عطا اس لیے فرمائی ہے چونکہ مرد گھر کے تمام نظام سنبھالتا ہے رزق حلال بھی کماتا ہے
مبشر لقمان نے کہا لیکن اگر کسی گھر کے اندر عورت کما رہی ہو تو؟
مفتی عبدالقوی نے کہا یہ جائز ہے کوئی حرج نہیں لیکن اس کا امامت سے کوئی تعلق نہیں امامت کے لیے مرد ہونا چاہیے اس کے پہچھے خواتین بھی پڑھے
مبشر لقمان نے سوال کیا کہ کیا موذن عورت ہو سکتی ہے اسلام میں ہمیں اس کی کوئی روایت ملتی ہے؟
اس پر مفتی قوی نے کہا کہ عورت موذن ہو سکتی ہے جب موذن کی بات ہوتی ہے تو اس کے اندر کوئی پابندی تو نہیں کہ کوئہ عورت موذن نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کی دلیل کہ عورت کی آواز عورت نہیں ہے بی بی عائشہ حضور کی حدیث سناتیں تھیں تو بہت سارے تابعین حضرات سنتے تھے اسی طرح کتب احادیث میں موجود ہے کہ بہت ساری خواتین اپنے زمانے کی بہت بڑی استاد حدیث تھیں وہ حدیثیں بیان کرتیں تھیں اور مرد حضرات بھی سنتے تھےعورت کی آواز عورت نہیں ہے تو مانا جائے تو جب موذن ہونے کے حوالے سے وہ اذان دے گی تو میں شرعی طور پر اس کے ساتھ ہوں
مبشر لقمان نے سوال کہا کہ میں نے احادیث پڑھی ہیں کہ عورت کی آواز گھر سے باہر نہیں جانی چاہیے جس گھر میں ایسا ہو اس میں بے برکتی ہوتی ہے؟
مفتی صاحب نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کہا جاتا ہے جہاں کتا ہوگا وہاں فرشتے نہیں آتے جبکہ پانچ طرح کے کتوں کی اجازت تو اسلام نے بھی دی ہے نبی رحمت نے بھی اجازت دی ہے اور ہر فقہہ کے اندر بھی موجود ہے اگر یہ خیر کح حوالے سے ہے تو کوئی اس کے اندر عورت ہونے کی بات نہیں عورت کی آواز عورت نہیں ہے بہت سی خواتین جب دین اسلام کے لیے درس دیتی ہیں تو لواتین کے ساتھ مرد حضرات بھی سنتے ہیں انہوں نے کہا مختصر بات یہ کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے لیکن عورت پردے میں رہے اس کی آواز مرد بھی سنے اور عورت بھی
ہم مردوں کو بُرا بھلا کہہ کر اور خاندانی نظام کو توڑ کر جدو جہد نہیں کر سکتے جویریہ صدیق








