آزادی اللّٰہ تعالٰی کی عطاء کردہ تمام نعمتوں میں سے سب سے انمول نعمت ہے۔ ایک انسان کے پاس دنیا کی تمام آسائشیں موجود ہوں پر اس کے پاس آزادی سے جینے اور کھلی ہوا میں سانس لینے کا حق نا ہو تو اس کا کیا حال ہوتا ہے اس بات سے آج ہم سب باخوبی واقف ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کو ہی دیکھ لیں۔ اس کے علاؤہ برما کے مسلمانوں کی بھی مثال لے لیں۔ آج وہ کہاں اور کس حال میں کھڑے ہیں۔

معصوم کشمیری ہندوستان کے چنگل میں پھنسیے ہوئے ہیں۔ آئے روز ظلم وبربریت کا نشانہ بنتے ہیں۔ وہاں کی سڑکیں ہر وقت مظلوم کشمیریوں کے خون سے بھیگی ہوتی ہیں۔ پھر دوسری طرف فلسطین کے مسلمان جو اسرائیل کی حیوانیت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔

آزادی کا صحیح مطلب بھی انھیں لوگوں کو پتا ہوگا کہ آزاری کسے کہتے ہیں؟ اور اپنا ملک کیسا ہوتا ہے؟ ہم جیسے لوگ تو آج بھی اپنے ملک کی ناقدری کرتے ہیں۔ ہمیں تو سب کچھ پہلے سے ہی پلیٹ میں سجا سجایا ملا ہے۔ قربانیاں تو ہمارے بزرگوں نے دی تھیں اور مشکلات سے دوچار بھی وہی ہوئے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہم لوگ کس قدر آرام سے اپنے ہی ملک پر تنقید کرجاتے ہیں۔

کہ اس ملک میں رکھا ہی کیا ہے؟ یہاں تو بےشمار برائیاں ہیں۔ پر ہم یہ نہیں سوچتے کہ پاکستان کا اصل دیوالیہ نکالنے والے بھی ہم ہی خود غرض لوگ ہیں۔ بجائے اس کے کہ اپنے بچوں جذبہ حب الوطنی پیدا کریں۔

انھیں ہم اپنے بزرگوں کی دی ہوئی اس ملک کے لیے قربانیوں سے روشناس کروائیں۔ انھیں یہ بتائیں کہ آج ہم جو یوں آزادی سے پاکستان میں رہ رہے ہیں اس سے قبل ہمارے آباؤ اجداد نے ہندوستان میں کیسی دردناک اور ذلت بھری زندگی گزاری تھی۔ پل پل ہندوؤں اور انگریزوں کی غلامی میں کاٹے تھے۔ پھر ہمارے اصلی ہیروز علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے لوگوں نے کس طرح سے اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے حق کے لیے انگریزوں اور ہندوؤں کا مقابلہ کیا تھا۔

کس قدر محنت کر کے ہمارے لیے الگ وطن پاکستان حاصل کیا۔ ہم آج اپنے بچوں کے سامنے بیٹھ کر اسی ملک میں سے سو سو کیڑے نکالتے ہیں۔ انھیں کہتے ہیں کہ یہاں کی تعلیم اچھی نہیں ہے، یہاں تم لوگوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور پھر انھیں بیرون ممالک تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد دل میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم واقع ہی آزادی کے حقدار تھے؟ کیونکہ ہم اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے اپنے رب کی دی ہوئی آزادی جیسی نعمت پہ ہمیشہ ناشکری ہی کرتے ہیں۔

اللّٰہ نے ہمیں اتنا خوبصورت ملک دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ملک کی فلاح وبہبود کے لیے کام کریں۔ ہر وقت اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔ اپنے بچوں کو اس پاک دھرتی سے محبت کرنا سیکھائیں اور ہر اس آنکھ کو نوچ ڈالنے کا جذبہ خود میں اور اپنی نسلوں کے اندر پیدا کریں جو ملک پاکستان کی طرف کبھی بھی میلی آنکھ سے دیکھنے کا سوچے۔

ہم زیادہ نہیں تو کم از کم اپنے ملک کا اتنا سا تو حق ادا کر ہی سکتے ہیں جو ہر وقت ایک ماں کی طرح ہمیں خود میں محفوظ رکھے ہوئے ہے۔

@SeharSulehri

Shares: