صدقہ کی برکات تحریر: چوہدری عطا محمد

0
39

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے
ترجمہ: ” *کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسنہ دے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُسے کئی گنا بڑھاکر واپس کرے، مال کا گھٹانا اور بڑھانا سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے ،اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کرجانا ہے* "۔ (البقرة۲۴۵)
سبحان اللہ۔ اور پھر رمضان کا مبارک مہینہ جس میں اللہ رب العزت ایک روپے صدقہ کرنے کا اجر بڑھا کر ستر گنا کر دیتے ہیں۔
ایسا ہی قصہ میرے دوست نے مجھے سنایا اور تھا بھی رمضان المبارک بابرکت فضیلتوں والا مہینہ آئیے اسی کی زبانی سنتے ہیں۔
وہ اک ٹرالر ڈرائیور ہے اور یہاں بیرون ملک میں مقیم لوگ جانتے ہیں کہ نو انٹری لگتی ہے بڑی گاڑیوں پر اک مخصوص وقت جب سکول ٹائم یا ڈیوٹی ٹائم ہو ویسے تقریباً یہ پوری دنیا میں نظامِ ہے کوئی بھی ملک ہو ہیوی گاڑی سکول و ڈیوٹی ٹائم میں منع ہوتیں ہیں۔
تو ہوا کچھ یوں کہ رمضان کا مہینہ تھا آخری عشرہ کی بات ہے کہ میں لوڈ لے کر آ رہا تھا یہ جانتے ہوے بھی کہ آگے ابھی پولیس والے کھڑے ہوں گے رستہ بند ہو گا مگر یہ معمول کا کام تھا اور رات 3 بجے وہ چھوڑ دیتے تھے پھر ہم جہاں ممکن ہو سکے سحری کرتے ہوٹل یا گھر ۔
ہوا کچھ یوں کہ اس رات کو بھی میں آ رہا تھا معمول کے مطابق ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا رستہ کھلنے میں تو میں بھی پارکینگ میں کھڑا ہو گیا باقی بھی بہت لوگ کھڑے انتظار کر رہے تھے تین بجے تو سب نے تیاری پکڑی مگر پتہ تب چلا جب پولیس والے نے کہا ابھی رستہ نہیں کھلے گا کچھ مسلہ ہے روڈ پر جب تک اوپر سے آرڈر نہیں آتے تب تک انتظار کریں میں گاڑی سے نیچے اترا اور پولیس والے سے مخاطب ہوا کہ سحری کا وقت تھوڑا باقی ہے ابھی ہم لوگ کسی منزل پر پہنچیں گے تو ہی کچھ ملے گا ورنہ پھر کچھ نہیں ملے گا اور روزہ رکھنا بھی مشکل ہو جاے گا اس نے کہا بس امید ہے جلدی حکم آ جاے اور ہم رستہ کھول دیں میں جانتا ہوں آپ لوگ بہت پریشان ہیں۔
خیر ہم انتظار کرتے رہے اور آخر کار 4 بجے اب صرف ہمارے پاس آدھا گھنٹہ بچا تھا سب لوگ پریشان ادھر ادھر گھوم رہے تھے کہ کیا کریں نہ پانی کا اسٹاک اتنا تھا کسی کے پاس اور نہ سحری لمبی لائنیں لگیں تھی گاڑیوں کی کیا کر سکتے تھے قانون کی پاسداری تو لازم ہے میں اپنی گاڑی میں بیٹھ کر سوچ رہا تھا کہ تھوڑا پانی ہے میرے پاس تقریباً ایک گلاس یا آدھا گلاس زیادہ کر لیں اب اسے پی کر ہی روزہ بند کر لوں گا اسی سوچ میں تھا کہ 20 منٹ باقی ہیں آخری پانچ منٹ تک ویٹ کرتا پھر پانی پی کر نیت کر لو گا کہ میرے دروازے پر کسی نے دستک دی جب میں نے باہر دیکھا تو اک باریش سفید داڑھی والے بزرگ تھا کہتے بیٹا پانی ملے گا 5۔7 کے پاس گیا ہوں کسی کے پاس سے بھی نہیں مل رہا اک خالی بوتل لیے وہ کھڑے تھے اب میں کیا کرتا مجھے بھی روزہ رکھنا باقیوں کی طرح میں بھی خود غرض ہو گیا اور انکار کر دیا نہیں ہے میرے پاس وہ مسکرا کر آگے چلے گئے میں پریشان ہو گیا کیا کروں ایک اللّٰہ کے بندے اور بزرگ آدمی کو انکار کر دیا اور خود کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ تم ابھی جوان ہو خیر تھی اگر دو گھونٹ پانی پیے بنا بھی روزہ رکھ لو تو ابھی اسی پریشانی کے عالم میں تھا کہ شاید دو یا تین منٹ گذرے ہوں گے تو میں دیکھا وہ بابا جی واپس آ رہے ہیں اور چہرے پر افسردگی ظاہر تھی اور پیاس بھی لگتا شدید لگی تھی انہیں مگر بوتل انکی خالی تھی ۔۔
جب میرے پاس سے گذرے تو میں آواز دی بابا جی پانی ملا کہتے نہیں بیٹا ہر کوئی پریشان ہے کئی سے پوچھا آگے دو تین سے پوچھا کوئی بھی پلانے کو تیار نہیں اسی اثناء میں میں نے بوتل انکی طرف کی اور معذرت کے ساتھ کہا آپ یہ پی لو میں کچھ کر لوں وہ مسکراتے چہرے کے ساتھ بوتل لےکر چل دیے اور کچھ دعائیں دیتے جا رہے تھے۔
میں نیچے اترا جہاں سے گاڑیاں آ رہی تھی اس طرف چل پڑا تو اک گاڑی اور رکی میں دوڑ کر اسکے پاس گیا اور پہلا سوال ہی پانی تھا وہ باہر نکلا کہتا استاد اندر جاو اور جی بھر کر پیو پانی بہت میں جب گاڑی میں داخل ہوا بے اختیار منہ سے نکلا سبحان اللّٰہ کیونکہ وہاں اک بوتل یخ ٹھنڈی اور ایک گرم پانی والی ڈرائیور کہتا مکس کرت جاو پیتے جی بھی کے میں دو گلاس پیا اور رب کا شکر ادا کرتے ہوے نیچے اترا اور سوچ رہا تھا ابھی کہ اک گلاس دیا اور فوری رب نے تجھے سیراب کر دیا اتنے میں پاس کھڑے ٹرالے سے مجھے آواز آئی کہ استاد جی سحری کی ہے میں سمجھ شاید کسی اور سے پوچھ رہے ہیں انہوں پھر مجھے آواز دی پنجابی بھائی وہ پٹھان تھا میں بولا نہیں بھائی یہاں پر اب کیا ملتا جو سحری کریں کہتا ہاتھ پکڑو میرا اور اس نے ہاتھ بڑھایا میں جب اوپر چڑھا تو کیا دیکھتا ہوں دستر خوان لگا ہے اور سامنے چاول اور مرغی ساتھ میں کریم ٹھنڈا پانی اور وہ سب کھا پی کر سائیڈ ہو چکے تھے اور یہ الگ پارسل تھا جو میرے لیے کھول کر لگایا انہوں نے وقت بہت کم تھا میں بابا جی کو ایک دو گاڑی میں دیکھا مگر نہیں ملے کچھ دوسرے لوگوں کو کہا وہ بھی اک دو ساتھ آ گئے اور ہم نے مل کر سحری مگر میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل رہے تھے کہ واہ میرے مالک تو نے کتنی جلدی اپنا واعدہ پورہ کیا اور پہلے مجھے پانی کے بدلے پانی دیا اور پھر پیٹ بھر کر کھانا کھلایا میرے مالک تیری تعریف جتنی کی جاے کم ہے تو اپنے وعدے سے کبھی نہیں مکرتا اور صدقہ پر جو تو نے وعدہ کیا اس سے ذرہ بھی کم نہیں عطا کرتا میں جب بھی اس واقع کو کسی کو سناتا ہوں تو میں آنکھوں میں رب تعالیٰ کی اپنے بندے سے محبت اور عطا پر آنسو نکل آتے بےشک وہ ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اور صدقہ کا قرض اپنے اوپر نہیں رہنے دیتا بلکہ وعدہ کے مطابق کئی گنا زیادہ واپس دیتا ہے ۔

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین

@ChAttaMuhNatt

Leave a reply