آزادی مارچ، مولانا فضل الرحمان گرفتار ہوئے تو قیادت کون کرے گا؟ اہم خبر
جمعیت علماء اسلام ف نے آزادی مارچ سے قبل مولانا فضل الرحمان کی ممکنہ گرفتاری کو لے کر مارچ کی قیادت کے لئے ناموں پر غور شروع کر دیا .
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی ممکنہ گرفتاری کے بعد مارچ کی قیادت کیلیے ناموں پر غور شروع کردیا ،مولانا فضل الرحمان کی ممکنہ گرفتاری کے بعد مولانا عبدالغفور حیدری مارچ کی قیادت کر سکتےہیں ،مولانا فضل الرحمان کی گرفتاری کے بعد قیادت کیلیے5ناموں پرغور کیاجارہا ہے، جے یوآئی کے رہنماؤں اکرم درانی،مولانا عطاء الرحمان،علامہ راشد خالد سومرو،مولانا اسعد محمود کےنام بھی زیر غور ہیں.
مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں سے رابطے تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مولانا چاہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں ان کے ساتھ ہوں لیکن اپوزیشن جماعتیں لانگ مارچ میں شریک نہیں ہونا چاہتی کیونکہ مولانا چاہتے ہیں کہ حکومت کے خاتمے تک دھرنا دیا جائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دیا جائے لیکن اپوزیشن جماعتیں متعدد بار کہہ چکی ہیں کہ استعفے مسئلہ کا حل نہیں، ایوان میں رہ کر حکومت کے خلاف احتجاج کریں گے.
باغی ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے رواں ہفتے ملاقات کریں گے اور لانگ مارچ میں شمولیت پر زور دیں گے.
مولانا کا آزادی مارچ، مولانا متحرک، رابطے، ملاقاتیں شروع
مولانا فضل الرحمان کے لانگ مارچ کے حوالہ سے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کہہ چکے ہیں کہ فضل الرحمان نےاسلام آباد کی طرف پیش قدمی کی تو لوگ انھیں خود روک لیں گے ، وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جو قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کریں گے ان کو سہولیات دی جائیں گے ، کیٹینر اور پانی بھی فراہم کریں گے لیکن اگر قانون ہاتھ میں لیا گیا تو روکیں گے.
اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا فیصلہ تو ہوا لیکن اب اپوزیشن جماعتیں مولانا کا ساتھ دینے کو تیار نظر نہیں آ رہی، اگر اپوزیشن جماعتوں نے ساتھ نہ بھی دیا تو مولانا فضل الرحمان اکیلے اپنے کارکنان کے ساتھ نکلیں گے اور یقینی طورپر تاریخی مارچ کریں گے، اس سے قبل مولانا فضل الرحمان ملک بھر میں ملین مارچ کر رہے ہیں، کراچی، سکھر لاہور سمیت مختلف شہروں میں ان کے پروگرام منعقد ہو چکے ہیں.
مولانا فضل الرحمان پندرہ برس بعد کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سے ہٹائے گئے کیونکہ وہ 2018 کا الیکشن ہار گئے تھے. الیکشن ہارنے کے بعد مولانا نے تحریک انصاف کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کی دھمکی دی تھی جو ابھی تک جاری ہے.
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد سے مولانا فضل الرحمن کی جانب سے کشمیر کے حوالہ سے کوئی مضبوط کردار دیکھنے میں نہیں آیا ہے حالانکہ وہ کشمیر کمیٹی کے متعدد مرتبہ چیئرمین رہ چکے ہیں اور ان کی وزارت پر کروڑوں روپے کے اخراجات آتے رہے ہیں، سوشل میڈیا پر لوگوں کی طرف سے اس بات پر سخت تنقید کی جارہی ہے کہ وہ کشمیر کیلئے کو کچھ کر نہیں رہے، جمعہ کے دن یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر بھی انہوں نے خاموشی اختیار کئے رکھی لیکن حکومت کے خلاف وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے اور دھرنا دینے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں،