عظیم بھائی کی عظیم بہن: فاطمہ جناح تحریر: حمزہ عمران


کسی بھی شخصیت کو جاننے کا عمل اس صورت میں مکمل ہو سکتا ہے جب اس کے ظاہر و باطن دونوں کا بغور مشاہدہ کیا جائے یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہر شخصیت کا ایک داخل ہوتا ہے اور ایک خارج، دونوں کے اتصال سے شخصیت وجود میں آتی ہے اور دونوں کے ملاپ سے ہی ایک شخصیت کا تاثر ابھرتا ہے۔۔۔
اعلیٰ علمی و ادبی شخصیات نفسیاتی اعتبار سے بے حد پیچیدہ ہوتی ہیں اور انہیں سمجھنا آسان نہیں ہے، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، وہ اپنی مثال آپ تھیں۔۔
محترمہ فاطمہ جناح اپنے ظاہری خدو خال میں قائد اعظم کی ہو بہو تصویر تھیں، بلند وبالا قد، گلابی چہرہ ، ستواں ناک ، آنکھوں میں بلا کی چمک جس سے ذہانت ٹپکتی تھی ۔۔
محترمہ فاطمہ جناح خوش طبع و شگفتہ مزاج خاتون تھیں ، عام گفتگو ہو یا خاص، عام محفل ہو یا خاص ہمیشہ بڑی بلاغت سے بات کرتیں تھیں ، وہ کسی شخص پر براہِ راست حملہ نہ کرتیں بلکہ ہنسی ہنسی میں ایسے الفاظ استعمال کر جاتیں تھیں جن سے دوسرا آدمی خاموش ہو جاتا تھا ۔۔
حق گوئی و بیباکی ، امانت و دیانت، بردباری ، سلیقہ شعاری اور وفاداری جیسی خوبیوں کا فرد واحد میں یکجا ہونا بہت کم دیکھنے میں ملتا ہے لیکن محترمہ فاطمہ جناح میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔۔۔۔۔
سیاست کا میدان ہو یا خدمت خلق کے کام ، محترمہ فاطمہ جناح ہر جگہ کارفرما نظر آتی تھیں۔ عوام کی خدمت کا جذبہ ان میں اس حد تک تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے عملہ کے ساتھ مصروف عمل دکھائی دیتیں۔۔۔۔
مہاجرین کی مدد اور آباد کاری میں محترمہ نے دن رات ایک کر دیا اس حوالے سے رقم کی سخت ضرورت تھی ، محترمہ فاطمہ جناح نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے تحت
سات ہزار روپے کا چندہ جمع کیا گیا۔ 13 ستمبر 1947 کو آپ نے اس کمیٹی کا اجلاس اپنی رہائش گاہ پر بلایا اور مختلف امدای کاموں میں رابطہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مہینہ میں دو بار ورک پارٹی اور سلائی پارٹی منعقد کرنے کے لیے گورنمنٹ ہاؤس پیش کر دیا ۔۔
محترمہ فاطمہ جناح درد مند دل رکھتی تھیں، وہ رضاکار خواتین کے ساتھ کام کرتی ہوئیں نظر آتیں، کبھی گورنمنٹ ہاؤس کی چھت پر لحاف بچھے ہوتے اور محترمہ انھیں ٹانکنے میں مصروف ہوتیں تو کبھی مہاجرین کے لئے سویٹر بنتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔
15 اکتوبر 1947 کو پیراڈائز سینما میں محترمہ فاطمہ جناح کی ہدایت پر ایک خیراتی شو کا انتظام کیا گیا جس سے ساڑھے پانچ ہزار روپے آمدن ہوئی ، یوں ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف وسائل اور پروگراموں کے زریعے ایک لاکھ تین ہزار چھ سو اٹھاون روپے جمع ہونے اور یہ سب کچھ محترمہ فاطمہ جناح کی کوششوں کا نتیجہ تھا، وہ عوام کی فلاح و بہبود اور بہتری کے کاموں میں بہت زوق و شوق سے حصہ لیتی تھیں، عوام کے دکھ سکھ بانٹ کر انہیں قلبی سکون حاصل ہوتا تھا۔ بقول اقبال ،
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے ۔۔۔
میں اس کا بندہ بنوں گا، جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا۔۔۔
محترمہ فاطمہ جناح سیاست کو عبادت سمجھتی تھیں، وقت کے تقاضے اور اس دور کی اہم ضرورت کے تحت سیاست میں دلچسپی لی اور برابر قائد اعظم کی ہدایت پر عمل کرتی رہیں۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد بھی قوم کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا اور جب ملک اندرونی دشمنوں میں گھر گیا تو محترمہ قوم کے لئے ایک مظبوط سہارے کے طور پہ سامنے آئیں، محترمہ فاطمہ جناح نے بارہا اپنی تقاریر میں قیام پاکستان کے مقاصد کو بیان کیا اور برملا کہا ۔
” پاکستان اس لئے بنایا گیا تھا کہ ہم اسلامی
اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں وہ لوگ جو اس راہ سے لوگوں کو بھٹکا رہے ہیں، دشمن اسلام کہلانے کے مستحق ہیں "۔
محترمہ فاطمہ جناح ایک جمہوریت پسند خاتون تھیں اور یہ سمجھتی تھیں کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے جمہوریت کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ اکتوبر 1949 میں جناح پارک پشاور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا :
” جمہوریت فقط قوم کی اخلاقی اور قومی حوالے سے سرفرازی ہی کے لئے اہم نہیں بلکہ یہ بیرون ملک پاکستان کے وقار کے لیے بھی ضروری ہے ”
محترمہ خلوص و محبت کا پیکر تھیں ، ہر ایک سے پیارو محبت سے پیش آتیں اور حتیٰ الامکان کوشش کرتیں کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو ۔ محبت و خلوص کی ایسی نظیر ملنا مشکل ہے، وہ تحریک پاکستان میں جس جوش و جذبے سے حصہ لیتی رہیں اور اپنی ساری زندگی جس طرح ملک و قوم کے لئے وقف کر دی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ایسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔۔
بقول میر ،
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں ۔۔۔

‎@PhilnthropistH

Comments are closed.