آخر فروری 1947 لارڈ ویول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو وائسرائے مقرر کیا گیا تاکہ برصغیر میں الجھے ہوئے آئینی مسائل کو ترامیم کر کے نئے انداز میں سلجھایا جائے، نئے وائسرائے کے کانگریسی لیڈروں سے دیرینہ تعلقات اور اس کے جزبہ خود پرستی سے ہندوؤں نے بہت فوائد حاصل کیے

اسی لیے شروع ہی سے ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے مسلم دشمنی کا اظہار ہونے لگا تاہم مسلمانوں کے آہنی عظم کے پیش نظر اسے یقین ہو گیا کہ ملک کی تقسیم کے بغیر چارہ نہیں، 3 جون کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے منصوبے کا اعلان کیا جس کی رو سے برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک حد بندی کمیشن مقرر کیا گیا جس نے پنجاب و بنگال کے صوبوں کو ہندو اور مسلم اکثریت کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔

آخر کار قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک کوششوں کی وجہ سے 13 اور 14 اگست 1947 درمیانی رات وہ مبارک گھڑی آن پہنچی جب مسلمان قوم کی صبر آزما سیاسی جد وجہد کامیابی سے ہم کنار ہوئی اور دنیا کے نقشے پر عظیم مسلم مملکت (پاکستان) نمودار ہوئی، مغربی پاکستان میں مغربی پنجاب، سندھ،سرحد اور بلوچستان کے صوبے شامل تھے اور مشرق بنگال اور سلہٹ کے علاقے شامل کیے گئے قائد اعظم محمد علی جناح اس مملکت کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے۔

جب پاکستان وجود میں آیا تو اسے بےشمار مسائل کا سامنا تھا، دفاتر کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا، ہلکی سی معیشت کی حالت تباہ ہو چکی تھی، ریل گاڑیوں کی آمد و رفت بند تھی تاہم قوم کے پختہ عزم نے ان تمام مشکلات پر قابو پا لیا اس دور کے اور بھی بہت سے بڑے بڑے مسائل سامنے آئے۔

تقسیم برصغیر کے ساتھ ہی مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا، مسلمان مہاجرین کے لٹے ہوئے قافلے بڑی بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان میں داخل ہوئے، تین ماہ کے اندر 55 لاکھ کے قریب مہاجرین مغربی پنجاب میں داخل ہوئے ان لوگوں کی آبادکاری اور ان کے لیے ابتدائی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی ایک سنگین مسئلہ تھا، تاہم مقامی مسلمانوں کے ایثار و تعاون سے یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا ہندوؤں کی متروکہ جائیدادیں مہاجرین کو دے دی گئیں اور زراعت پیشہ لوگوں کو زرخیز نہری زمینوں پر آباد کیا گیا۔

کشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت تھی برصغیر کی تقسیم جس اصول پر ہوئی تھی اس کی رو سے کشمیر کا حصہ تھا۔ لیکن لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ہندو لیڈروں نے اک سازش کے تحت حد بندی کمیشن کے ذریعے گورداسپور کا علاقہ بھارت میں شامل کرا دیا، حالانکہ یہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی مقصد یہ تھا کہ اس علاقے کے ذریعے بھارت کی سرحد کشمیر سے ملا دی جائے۔

انڈیا نے اس صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اکتوبر 1947 میں اپنی افواج کشمیر میں اتار دیں، انڈیا کی اس جارحیت کے سامنے پاکستان خاموشی تماشائی نہیں بن سکتا تھا چنانچہ رہاست پاکستان نے بھی اپنی افواج کا کچھ حصہ آزاد کشمیر داخل کر دیا بھارت نے معاملہ سلامتی کونسل میں پیش کر دیا چنانچہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہو گئی اور طے پایا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ استصواب کے ذریعے کریں گے بھارت نے اس وقت تو یہ فیصلہ تسلیم کر لیا مگر وہ آج تک استصواب کو ٹالتا رہا ہے اور یہ مسئلہ پاک بھارت تعلقات کی کشیدگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔

‎@Rana241_7

Shares: