‏سرخ جوڑے میں لپٹی لاشیں تحریر: صالح ساحل

0
36

اللہ تعالیٰ نے بہت سے رشتے انسان کے ساتھ خود بنا کر بھیجے ہیں مگر ایک رشتہ ہے جس کا اختیار انسان کو دیا ہے کے وہ خود بنائیں یہ خوب صورت رشتہ میاں اور بیوی کا رشتہ ہے اور اس کا مکمل اختیار لڑکے اور لڑکی کو دیا ہے کے تمہاری اجازت کے بغیر کوئ زبردستی نہیں ہو گی نہ صرف اسلام بلکہ کے دنیا بھی جبری شادی کو ایک اخلاقی برائ سمجھتی ہے اور اس کے خلاف قانون سازی کر رہی ہے لیکن آج میں جس نقطے کی طرف توجہ مرکوز کروانا چاہتا ہوں وہ ہے ہمارا روایہ اس معاملے میں یوں تو ہم بہت اسلام کے علم بردار بنتے ہیں مگر کیاہم نے کبھی غور کیا کہ ہم خود کیا کر رہے ہیں ہمارے معاشرے میں آج بھی بیٹی کو یہ کہہ دیا جاتا ہے کے تمہارا رشتہ کر دیا گیا ہے اور ایک مطلق حکم کی طرح صادر کر کے اس کی تکمیل کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے ہم کو اس کی پسند نا پسند سے کوئ غرض نہیں ہوتا اس کے خوابوں کو ایک پل میں آسمان سے گرا کر زمین کی سات تہوں میں دفن کر دیا جاتا ہے لڑکے کا کردار کیا ہے وہ کیا کرتا ہے اس کی نیچر کیا ہے ہمارے لیے معنی نہیں رکھتا ہم صرف اپنی جھوٹی آنا کی جیت کے شامیانے بجا رہے ہوتے ہیں ہم اس اخلاقی گراوٹ کو اپنی عزت کی جیت قرار دے کر فخر کر رہے ہوتے ہیں اور وہ گھر کے ایک پہلو میں بیٹھی بیٹی جس کو اتنا حق بھی نہیں کے وہ اس بندھن کے لیے تیار بھی ہے کے نہیں صرف اپنی بدقسمتی پر ماتم کر رہی ہوتی انہیں فضولیات کی دلدل میں اگر کوئ ہمت کر کے اپنی پسند کا اظہار کر دے تو آوارہ اور بد کردار بن جاتی ہے اور کہیں تو یہ گرواٹ اس قدر رو باعمل ہے کے بچپن ہی سے بتا دیا جاتا ہے کے فلاح شخص تمہارا ہمسفر ہو گا اور خبردار اگر اس پنجرے سے باہر تم نے خواب دیکھے تو تمہارا اس دنیا میں آنا ہی تمہارے لیے بہت ہے باقی تمہاری خوشیوں اور تمہاری زندگی کے فیصلے ہم کریں گے اس لیے زیادہ تر اپنی پسند اپنے والدین اپنے خاندان کی عزت کے ڈر سے قربان کر دیتی ہیں کیا کبھی ہم نے سوچا کے اسلام سے قبل تو بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا مگر ہم کیا کر رہے ہیں ہم ان کی خوشیاں ان کے خواب ان کی پسند کو دفن کر کے اس پر اپنی جھوٹی عزت کے محل تعمیر کر رہے ہیں ارے ایسی عزت کا کیا فایدہ جس کے لیے اپنی بیٹیوں کی قربانی دے دی جائے گھر کے آنگن سے وہ بیٹی جس کو بڑے ناز سے پالا ہوتا ہے سرخ جوڑے میں لپیٹ کر ایک لاش کر طرح رخصت کر دی جاتی ہیں ہم سمجھتے ہیں ہم جیت گے مگر ہم ہار چکے ہوتے ہیں ہم نے ایک معصوم کی خوشیوں کے قاتل ہوتے ہیں اور کائنات کا رب سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے وہ رب جس نے زبردستی کا حق تو اپنے آپ کو منوانے کے لیے نہیں دیا وہ کیسے تمہارے اس جرم کو معاف کرے گا جہاں اس نے اختیار دیا ہے لڑکی کو ہم نہ صرف رب کے دییے گے اس اختیار کو سلب کرتے ہیں بلکہ کے اپنی عزت کی اس عمارت کے چکر میں معصوم زندگیاں برباد کر دیتے ہیں آج جس معاشرے کے ڈر سے ہم نے یہ سب کچھ کیا ہوتا ہے کل رشتوں کی ناکامی پر یہی معاشرہ ایک پل میں آپ کی بیٹی کو قصوروار اور بدکردار تک کا سرٹیفیکیٹ دے چکا ہوتا یہ خاندان یہ معاشرہ اسی طرح اپنی زندگی میں معروف عمل ہو جاتا ہے اور زندگی تباہ ایک لڑکی کی ہو جاتی ہے ہر روز اسی معاشرے کے ڈر سے اور اپنی جھوٹی عزت و آنا کی خاطر ہم سرخ جوڑے میں لپٹی لاشیں رخصت کر رہے ہوتے ہیں میں اپنی مخاطبین سے ایک سوال رکھ کر اجازت چاہوں گا کہ اگر زبردستی کی شادی نا جائز ہیں تو عزت اور رشتوں کے نام پر بلیک میل کر کے گی شادی جائز ہے کیا اور زبردستی کی شادی رب کے ہاں جرم ہے تو بلیک میلنگ سے کی گی شادی جرم نہیں ہو گی کیا ؟؟
‎@painandsmile334

Leave a reply