بمبئی کے مشرق میں دور افتادہ گاؤں کرہی کی 51 سالہ باہمت خاتون ٹیچر نے بیماری کے باعث دونوں ہاتھ اور پاؤں کٹ جانے کے بعد بھی علم کو پھیلانے کا مشن جاری رکھا ہوا ہے-
باغی ٹی وی : "العربیہ” کے مطابق پرتیبھا نامی خاتون ٹیچر اپنے گاؤں کرہی میں چھوٹے بچوں کو پڑھاتی ہیں جہاں تعلیمی مواقع بہت کم ہیں پرتیبھا کا کہنا ہے کہ جب تین سال قبل گینگرین کی وجہ سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے گئے تھے تو یہ ان کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور مشکل مرحلہ تھا، مگر وہ اس خوفناک آزمائش سےگذر کرایک بار پھراپنے پیشے سے جڑ گئی ہیں اور بچوں کو پڑھانا شروع کردیا ہے کمرہ جماعت میں جب اُنہیں قلم یا چاک پکڑنا ہوتی ہے تو وہ قلم یا چاک کو اپنے کٹے بازو سے باندھ لیتی ہیں۔
کراچی :مندر پر حملہ کرنے والے افراد کے خلاف مقدمہ درج
العربیہ نے اے ایف پی کے حوالے سے بتایا کہ پرتیبھا نے بتایا کہ میں بچوں سے پیار کرتی تھی اور اب بھی کرتی ہوں، اگر میں بے کار بیٹھی رہتی تو میں اب کسی دوسری دنیا میں ہوتی۔ جو میرے ساتھ ہوا اسے مسلسل یاد کر رہی ہوتی –
پرتیبھا نے بتایا کہ سنہ 2019 میں ان پر ڈینگی بخار کا شدید حملہ ہوا اور ان کی حالت گینگرین کی وجہ سے خراب ہوگئی۔ جس کی وجہ سے ان کے دائیں ہاتھ کو کاٹنا پڑا۔ چند ہفتوں بعد سرجنوں کو ان کا بایاں ہاتھ کاٹنا پڑا۔ پھر دونوں ٹانگیں گھٹنوں کے نیچے کاٹنا پڑیں جب ڈاکٹروں نے میرا ایک ہاتھ کاٹا تو میں مستقبل میں کچھ کرنے کی صلاحیت کی امید کھو بیٹھی۔ میں افسردہ ہو گئی۔ میں نے آٹھ دن تک کسی سے بات نہیں کی میں نے اپنے اعضاء کے کٹنے کے بعد سوچا کہ میں اب کسی چیز کے قابل نہیں رہی، لیکن میں نے جلد ہی ایک پختہ فیصلہ کر لیا کہ میں سب کچھ کر سکتی ہوں اور میں سب کچھ کروں گی۔
جامعہ کراچی دھماکے میں جاں بحق تین چینی اساتذہ کیلئے تمغہ امتیاز
پرتیبھا کے مطابق اس نے محسوس کیا کہ اس کی زندگی اس کے خاندان کے تعاون سے دوبارہ پڑھانے کی بدولت قیمتی ہونے لگی ہےخاندان نے صحت یابی کے دوران انہیں دوبارہ بچوں کو پڑھانےکی ترغیب دی سنہ 2020 میں جب کوویڈ 19 وبائی امراض کی وجہ سے اسکول بند ہوگئےتھےتو پرتیبھا نے ایک مقامی پرائمری اسکول میں جس میں انہوں نے تین دہائیوں تک کام کیا تھا کے طلبا کو گھروں میں پڑھانا شروع کیا اس سےان طلبا کو فائدہ پہنچا جن کےوالدین آن لائن تعلیم کےذرائع سےاستفادےکےاہل نہیں تھے اگرچہ اسکولوں نےچند ماہ قبل حاضری کے اسباق دوبارہ شروع کیے تھے، لیکن گاؤں کے 40 بچے پرتیبھا کے اسباق میں حصہ لیتے رہے۔