حضرت آدم علیہ السلام کے پیدا ہونے سے ہی انسان نے زندگی میں اپنے مسائل کو پرکھنے اور ان کے حل کے لیے جستجو کی ہے۔ مختلف عقائد اور نظریات پر آزادی سے پہرہ دینے کے لیے مختلف قوموں نے جنم لیا۔ پاکستان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو 14 اگست 1947 میں دُنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی ریاست کے نام پر وجود میں آیا آئیے پچھتر سالہ پاکستان کے سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی اور دفاعی سمیت دیگر اہم پہلوؤں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
انگریز اور ہندو پاکستان بننے کے حق میں نہیں تھے تقسیمِ ہند کا مسودہ پیش لرتے وقت برطانوی وزیرِاعظم لارڈ اٹیلی نے کہا تھا "ہندوستان تقسیم ہو رہا ہے لیکن مجھے امید ہے یہ تقسیم زیادہ دیر تک نہیں رہے گی اور جلد یہ دونوں ممالک جنہیں ہم الگ کر رہے ہیں ایک ہو جائیں گے” لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ پاکستان محض ایک زمینی خطہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی قوم ہے کہ جس کے متعلق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو 1937ء میں لکھے گئے خط میں واضح کیا کہ "اگر ہندوستان کے مسلمانوں کا مقصد سیاسی جدوجہد سے محض آزادی اور اقتصادی بہبود ہے اور حفاظتِ اسلام اس کوشش کا حصہ نہیں تو مسلمان اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے لہٰذا قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عظیم لیڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے عوام کو اسلامی نظریے کو حاصل کرنے کے لیے ایک قوم بنایا نہ کے ایک خطے کے حصول کے لیے۔
13 اگست 1947 کی رات 12 بجے برصغیر کے معروف براڈکاسٹر مصطفیٰ علی ہمدانی نے آل انڈیا ریڈیو پر آزادی کا اعلان کرتے ہوئے کہا
"بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلام و علیکم 13 اور 14 اگست 1947ء کی درمیانی شب 12 بجے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس طلوع صبح آزادی”
یوں قوم کو آزاد اسلامی ریاست "پاکستان” کی خوشخبری سُنا دی گئی اب یہ صرف ایک عام خطہ نہ تھا بلکہ مسلم امت کی ایک بہت بڑی آزاد ریاست تھی۔
کسی بھی جمہوری ریاست کے چار بنیادی ستون مقننہ انتظامیہ عدلیہ اور ذرائع ابلاغ ہوتے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہت سارے اہم ترین بل کثرتِ رائے سے پاس ہوئے تاکہ اگر پاکستان میں یہ قوانین نہ بنائے جاتے تو ملک شدید اختلافات کی زد میں ہوتا ان قوانین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا قانون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیّین ہونے کا قانون صدر اور وزیر اعظم کے مسلمان ہونے سمیت کئی قوانین شامل ہیں جو کہ پاکستان کے ایک اسلامی ریاست ہونے کی ترجمانی کرتے ہیں انتظامیہ ان قوانین کی خلاف ورزی پر متحرک کردار ادا کر کے ریاست کو فسادات سے محفوظ رکھنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے جبکہ عدلیہ قوانین پر عمل درآمد کر کے جزاء و سزا کو عمل میں لاتی ہے تاکہ ملک میں اعتدال کو قائم رکھا جائے، چوتھا ستون یعنی ذرائع ابلاغ چھوٹے مسائل سے لے کر قومی و ملی مسائل کو با اختیار لوگوں تک پہنچا کر اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں ان چار ستونوں کے ساتھ ایک اہم ترین کردار دفاعی اداروں کا ہے جو ریاست کی چھت کا کردار ادا کرتے ہیں اور دفاعی حدود پر اپنی جان ہتھیلی میں رکھ کر قوم کی حفاظت کی ذمہ داری کے فرائض سر انجام دیتے ہیں اور قوم کو اپنے ذاتی گھر کی طرح کا تحفظ دینے میں اپنا زبردست کردار ادا کرتے ہیں۔
بات کی جائے معاشی پہلو کی تو قیمتی زمینی ذخائر اور باصلاحیت ہنر مند لوگ کسی بھی مستحکم معیشت کے ضامن ہوتے ہیں پاکستان کو ابتدائی طور پر ہنر مند لوگوں کی کمی کا سامنا رہا تھا مختلف شعبوں میں ترقی کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر روابط سے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی پاکستانیوں نے غیر ملکیوں کی مدد سے ہنر سیکھے اور خوب محنت کر کے ابتدائی طور پر ملکی معیشت کو مضبوط سہارا دیا زراعت اور دیگر شعبوں میں کثرتِ محنت کے نتیجے میں خوب ترقی حاصل کی تاہم ترقی کے اس سفر میں سیاسی عدم استحکام ہمیشہ معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوا یوں تاحال پاکستان باوجود باہنر افراد اور زمینی ذخائر کے عالمی سطح پر اپنی مضبوط معیشت کو منوانے میں ناکام رہا ہے حالانکہ پاکستان ذرائع ابلاغ کی بدولت دنیا کے معاشی نظام سے خوب واقف رہا ہے مگر اپنی معیشت کو اس کے مطابق نہ ڈھال سکا۔
ذرائع ابلاغ نے ہر دور میں اپنا اہم ترین کردار ادا کیا ہے مگر مواصلاتی ترقی نے اس کی اہمیت میں بے حد اضافہ کر دیا ہے۔ میڈیا کو بہت سارے ممالک میں اظہارِ خیال کی کھلی آزادی ہے جبکہ چند ممالک میں میڈیا پر بہت سی پابندیاں عائد ہیں یاد رہے میڈیا کی زبان باندھ دی جائے یا اس کی بیڑیاں کھول دی جائیں دونوں طریقے ہی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ زبان بندی سے میڈیا صرف وہ پیغام پہنچاتا ہے جس کا اسے پابند کیا جاتا ہے جبکہ آزاد میڈیا اکثر اوقات ملکی دفاع کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے پاکستان میں آزاد میڈیا پر وقفے وقفے سے پابندیاں لگتی آئی ہیں ان پابندیوں میں کالم نگار بھی کسی دوسرے کے ہاتھ سے لکھتا اور صحافی بھی کسی اور کی زبان بولتا تھا جبکہ اب آزاد میڈیا کی حیثیت سے ہر اخبار یا ٹی وی چینل ذاتی مفاد کی خاطر اکثر مخصوص سیاسی پارٹیوں کی حمایت یا مخالفت کرتے رہتے ہیں.
ملکی سطح پر اگر ان کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا جائے تو عوام سنسنی خیزی کے جذبات اور انتشار سے محفوظ رہ سکتے ہیں
تعلیم و تربیت کے ہی پہلو کا سطحی جائزہ لیا جائے تو کسی بھی ملک کا منظم تعلیمی سسٹم اور نصاب اس ملک کے روشن مستقبل کی توثیق یا تردید کرتا ہے پاکستان کی بیشتر آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہے جس وجہ سے تمام بچے ابتدا سے ہی تعلیم کی طرف نہیں آتے یا ابتدائی تعلیم کے دوران ہی چھوڑ جاتے ہیں مگر پھر بھی بحثیتِ قوم پاکستان میں تعلیم کے ساتھ ایک خاص لگاؤ اور دلچسپی برقرار ہے ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں دو لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں پندرہ لاکھ پینتیس ہزار اساتذہ کرام چار کروڑ دس لاکھ سے زائد بچوں کو تعلیم مہیا کر رہے ہیں تعلیم مہیا کرنے والے ان اداروں میں چالیس ہزار سے زائد چھوٹے بڑے مدرسے اور دینی درسگاہیں بھی شامل ہیں مگر اس سب کے با وجود حیرت انگیز طور پر پاکستان کا نظامِ تعلیم دنیا کے جدید تعلیمی تقاضوں سے نہ ہونے کے برابر مطابقت رکھتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں بہتر تعلیمی نظام کے ممالک میں پاکستان اس وقت ایک سو پچیسویں نمبر پر موجود ہے تحقیق کرنے والے ادارے نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے نظام تعلیم کا مطلب تعلیم کا نظام نہ ہونا ہے۔ بنیادی طور پر اچھے نصاب اور عملی تربیت کا فقدان اس تنزلی کی بڑی وجوہات ہیں ہمارے نظامِ سیاست نے ملک کے ہر شعبے کی ساکھ کو دیمک زدہ کر کے رکھ دیا ہے۔
پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بڑا غیر مستحکم ہے کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو کبھی وفادار لیڈر نہیں ملا اگر ملا تو اس کی قدر نہیں کی گئی آزادی کے بعد جلد ہی پاکستان کو نظر لگ گئی تھی پہلے ہی وزیرِ اعظم کو شہید کر دیا گیا ابتدا سے آج تک میرا ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے کبھی صدارتی نظام رائج کر دیا جاتا رہا اور کبھی مارشل لاء کا قانون نافذ کر دیا جاتا کبھی سرپرستِ مملکت کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تو کبھی جبراً جلا وطن کر دیا جاتا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ کچھ با اثر پاکستان دشمنوں کی طرف سے پہلے دن سے قوم اور قومی راہنماؤں کا یوں مذاق اڑایا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اگر کوئی قوم کی نبض پر ہاتھ رکھنے والا لیڈر آئے کہ جس کے کہنے پر پوری قوم ملکی مفاد کے لیے یک جان ہو جائے ایسے لیڈر کو بھی استعمال کیا جاتا ہے اس میں نہ صرف غیر ملکی مداخلت شامل ہے بلکہ پس پردہ ہمارے ہی سیاستدان استعمال ہوتے ہیں۔
اگر مزید پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا جائے تو ہر پہلو پر ایک مدلل طویل تحریر مرتب ہوگی مگر اب چند اصلاحی اختتامی سطور پر اکتفا کروں گا کہ پاکستانی قوم لا الہ کے مشن پر آزاد ہوئی تھی اسے لا الہ کے حقیقی مشن پر قائم رہنے دیا جائے ان کے نیک جذبات کی قدر کی جائے قوم کو سیاسی سماجی سطح پر منتشر نہ کیا جائے بارڈرز پر کھڑی فوج کا احترام کیا جائے اسپتالوں میں پڑے مریضوں سے ہمدردی کی جائے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے قیمتی ہنر کی کی قدر کی جائے تعلیم و تربیت کا عالمی اسلامی اصولوں پر اہتمام کر کے اس تک عام آدمی کی رسائی کو ممکن بنایا جائے ذرائع ابلاغ محض ریٹنگ کی خاطر قوم کو منتشر نہ کریں سیاست دان اگر پاکستان کے حق میں تقریریں کرتے ہیں تو اس سے کہیں بہتر ہے اپنے کام کو بحسنِ خوبی سر انجام دیں تا کہ تقاریر سے مطمئن کرنے کی نوبت ہی پیش نہ آئے آج ہمیں 1947 کی آزادی کے جذبات سے آگاہ رہنے کے لیے آباؤ اجداد کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اپنے نیک جذبات کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے اور اپنی تمام تر خدمات سے پاکستان کو دن دگنی رات چگنی ترقی دینے میں اہم کردار ادا کر سکیں.
وطن کے جاں نثار ہیں وطن کے کام آئیں گے
ہم اس زمیں کو ایک روز آسماں بنائیں گے