امریکہ جس طرح افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کر کرتا جا رہا ہے اس طرح افغانستان طالبان کے قبضے میں تیزی سے آرہا ہے. خطے کے تمام ممالک اس پیش رفت سے پریشان ہیں. طالبان مختلف ممالک سے لگنے والی سرحدی علاقوں پر قبضہ اور اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے جا رہے ہیں. ایران سے لگنے والی سرحد کاروباری راستے ” اسلام قلعہ ” ترکمانستان سے لگنے والی سرحدی علاقے پر کنٹرول کے بعد پاک-افغان سرحد پر کاروباری راستے ” باب دوستی ” پر بھی قبضہ کرلیا ہے اور آنے جانے کا وہ اہم راستہ بند ہوگیا ہے. بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی انتظامیہ پاکستان سرحدی شہر چمن کے ساتھ لگنے والے افغان علاقے ویش منڈی پر طالبان کی موجودگی کی آگاہی دے دی گئی ہے اور پاکستان کے اس پار افغان علاقے میں طالبان کے جھنڈے نظر آرہے ہیں…
افغانستان سے امریکہ کے بھاگ جانے کے فیصلے اور اس پر عمل کرنے کے بعد غیریقینی کی دھند نے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے. افغانستان کے بڑے بڑے علاقوں پر طالبان کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے. کابل انتظامیہ آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جا رہی ہے. افغان طالبان نے مذاکرات میں عالمی طاقتوں کو انسانی حقوق, اور خطے کے دوسرے ممالک میں مداخلت نہ کرنے سمیت جتنی خاطریاں کروائی تھیں وہ بہتی ہوئی نظر آرہی ہے. افغان سرکاری فوج کے جوان جان بچا کر بھاگ گئے. کئی افغانستان سکیورٹی فورسز کے جوانوں نے ترکمانستان میں پناہ لے لی ہے. اور جو ہتھیار ڈال رہے ہیں انکو جنگی قیدیوں کی حیثیت دے کر عالمی اصولوں اور معاہدوں پر عمل کرنے کی بجائے ان کو مارا جا رہا ہے. طالبان کی اس وقت جنگ افغان سرکاری فورسز کے ساتھ چل رہی ہے تاکہ پورے ملک پر کنٹرول حاصل کیا جائے. پر دوسرا مرحلہ ان قوّتوں سے ٹکراؤ کا ہے جو افغانستان میں اختیار اور اقتدار کے خواہشمند ہیں مطلب کہ وہ ” وار لارڈز ” بھی لڑنے کی تیاری میں ہیں جنہوں نے 90ع میں مخالفین کی گردنیں کٹوا کر ان سے فٹبال کھیلے یاں کٹی گردنوں میں سوراخ کر کے ان میں موم بتیاں جلا کر جیت کا جشن منایا. اس ساری صورتحال کا جس ملک پر زیادہ اثر پڑے گا وہ ملک پاکستان ہے. ویسے بھی افغانی پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے رہے ہیں اور پاکستان بھی افغان پناہگیروں کی 40 سال سے زائد عرصے سے مہمان نوازی کا رکارڈ قائم کر چکا ہے ان کی اس ملک میں آبادکاری کی سرکاری سطح پر بالواسطہ یا بلاواسطہ صحولتکاری ہوتی رہی ہے. صورتحال زیادہ خراب ہوئی تو نہ صرف پاکستان پر افغان پناہگیروں کا وزن بڑھے گا بلکہ پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ افغانی پناہگیروں کے شکل میں دہشتگرد بھی آ سکتے ہیں جو ایک حقیقت ہے. پاکستان حکمران یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ طالبان کو پاور ملنے سے پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان مضبوط ہوگی. زبانی باتیں ہو رہی ہیں ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو غیر سنجیدگی ہی نظر آرہی ہے. پاکستان میں دہشتگردوں کی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں جس کا ایک ثبوت دو دن پہلے صوبے خیبر پختون خواہ کے ضلع کرم میں دہشتگردوں سے مقابلہ ہے جس میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے جوان شہید ہوئے ہیں. ہمارے حکمرانوں نے اگر سنجیدگی سے کام نہ کیا تو عالمی قوتیں جن کے اس خطے میں مفاد ہیں اور دہشتگرد اس ملک کو میدان جنگ بنا سکتے ہیں. اس وقت ہی پاکستان کے تفریحی مقامات مری اور دوسری کئی جگہوں پر طالبان کے حق میں نعرے اور ان کے حق میں سرگرمیاں رپورٹ کی گئی ہیں.
پاکستان خطے میں ہونے والی تبدیلیوں, افغانستان میں ہونے والی نئی پیش رفت اور عالمی طاقتوں کی مفادات کی جنگ سے لاتعلق نہیں رہ سکتا. ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ساری صورتحال کو عقابی نظر سے دیکھا جائے اور ساتھ ساتھ ایسے اقدامات نہ اٹھائے جائیں جو پاکستان اس ساری تبدیلی اور ٹکراؤ کا تختۂ مشق بن جائے. افغانی پناہگیروں کا وزن اٹھانے کا مقصد ہوگا کہ اس ملک میں نئی جنگ اور خطرے کو اس ملک میں راستہ دینا. اس لئے پرامن افغانستان پاکستان سمیت پورے خطے کے حق میں بہتر ہے اس لئے افغانستان معاملے کی سیاسی حل کی کوششیں کرنی چاہئیں