رضوانہ تشدد کیس ،ملزمہ کی ضمانت خارج کمرہ عدالت سے گرفتار

0
37
kamsin bachi

ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمہ تشدد کیس میں ملزمہ صومیہ عاصم کو ضمانت خارج ہونے پر گرفتار کرلیا گیا۔

ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق آئی سی سی پی او نے مقدمہ کی میرٹ پر تفتیش کے لئے ایس جے آئی ٹی قائم کی تھی۔مقدمے کی تفتیش میں تمام پہلوؤں کو مدنظررکھتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔قانون سب کے لئے برابر ہے، کسی کے ساتھ ناانصافی ہرگز نہیں کی جائے گی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ، کم عمر ملازمہ رضوانہ تشدد کیس کی سماعت ہوئی ،عدالت نے ملزمہ سومیا کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے گرفتار کرنے کا حکم جاری کردیا ،جج فرخ فرید نے پراسیکیوشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سچ کو تلاش کرنے میں ڈر نہیں ہونا چاہیے، شواہد ایمانداری سے جمع کریں، پریشر نہ لیں، تفتیش میرٹ پر ہونی چاہیے،

عدالت نے ضمانت خارج کی تو ڈی آئی جی اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ پہنچ گئے ،جج فرخ فرید بلوچ نے کہا کہ ملزمہ کو کمرہ عدالت سے باہر لے جائیں ،میرے لیے بھی مشکل ہے میرے کولیگ کی اہلیہ ہیں،لیکن جہاں انصاف کی بات ہو گی تو میں نے انصاف کرنا ہے،ملزمہ سومیا عاصم کے وکلا نے جج فرید فرید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 5 منٹ تک لے کر جا رہے ہیں،ڈی آئی جی شہزادہ بخاری نے اہلکاروں کو حکم دیا کہ ملزمہ کو فوری طور پر گرفتار کریں کہیں جانے کی اجازت نہیں دینی ۔عدالت سے باہر نکلتے ہی پولیس نے ملزمہ کو گرفتار کر لیا،

مجھے انصاف ملنا چاہئے کسی سے پیسے نہیں لوں گی،والدہ رضوانہ
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں رضوانہ تشدد کیس کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کمسن بچی کی والدہ کا کہنا تھا کہ مجھے انصاف ملنا چاہئے کسی سے پیسے نہیں لوں گی میری بچی بھوکی پیاسی رہی اسے کمروں میں بند رکھتے تھے،رضوانہ کی وکیل کا کہنا تھا کہ رضوانہ کی والدہ کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ کیس سے پیچھے نہیں ہٹی ہم پر الزام لگایا گیا کہ ہم نے ہی رضوانہ پر تشدد کیا ہے تشدد کا آلہ برآمد کرنا ضروری ہے اس لئے ملزمہ کی گرفتاری ضروری تھی اس کیس میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے اور انصاف ہونا چاہئے

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ، کم عمر ملازمہ رضوانہ تشدد کیس .سول جج کی اہلیہ ملزمہ سومیا عاصم کی درخواست ضمانت پر سماعت وقفہ کے بعد ہوئی ،ڈیوٹی جج ایڈیشنل سیشن جج فرخ فرید بلوچ نے سماعت کی، ملزمہ عدالت کے سامنے پیش ہو گئی،پولیس نے ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کر دیا جس کے بعد عدالت نے ملزمہ کے وکیل کی استدعا پر کیس کی سماعت میں دس بجے تک کا وقفہ کردیا۔

دوبارہ سماعت ہوئی تو جج نے استفسار کیا کہ ملزمہ سومیاعاصم کے خلاف کیس کا ریکارڈ کدھر ہے؟ ملزمہ سومیاعاصم کو روسٹرم پر بلا لیاگیا، وکیل ملزمہ بھی پیش ہو گئے، اور کہا کہ ملزمہ سومیاعاصم جی آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئی اور اپنی بے گناہی کا اظہار کیا،ریکارڈ میں پولیس نے لکھا کہ ملزمہ سومیاعاصم نے تشدد نہیں کیا،سومیاعاصم نے ملازمہ کو واپس بھیجنے کا بار بار کہا،ڈھائی گھنٹے بچی بس اسٹاپ پر بیٹھی جو اس وقت اٹھ نہیں پارہی تھی، سومیاعاصم نے کم سن بچی کو اس کی ماں کو صحیح سلامت دیا، آج دوپہر کو جی آئی ٹی نے بچی کی ماں اور ڈرائیور کو بلایا ہوا ہے،شام تک انتظار کرلیا جائے تو بہتر ہوگا، جے آئی ٹی کی تفتیش مکمل ہو جائےگی،

وکیلِ صفائی نے کہا کہ کیا سومیاعاصم کو جیل بھیجا ضروری ہے؟ پراسیکیوشن نے ملزمہ سومیاعاصم کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کردی جج فرخ فرید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملزمہ سومیاعاصم تو ہر حال میں شامل تفتیش ہونے کی پابند ہے، وکیل صفائی نے کہا کہ تفتیشی افسر نے تمام پہلوؤں پر تفتیش نہیں کی، کیا تفتیشی افسر نے وقوعہ کی وڈیو حاصل کی؟ جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ عبوری ضمانت کا کیس ہے آپ دلائل شروع کریں ،آپ کے دفاع میں جو بھی ثبوت ہیں وہ آپ تفتیش میں سامنے لا سکتے ہیں ،

ملزمہ کے وکیل نے جے آئی ٹی رپورٹ آنے تک کیس ملتوی کرنے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے کہا کہ عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت ملتوی کرنے کے لیے یہ گراؤنڈ نہیں ، پراسیکوٹر نے کہا کہ ہماری اب تک تفتیش مکمل ہے، اب گرفتاری کے بعد تفتیش کرنی ہے ،وکیل ملزمہ نے کہا کہ ہم کہتے ہیں ویڈیو موجود ہے ویڈیو لیں ،کیا تفتیشی نے ویڈیو حاصل کی،بس سٹاپ پر تین گھنٹے کی ویڈیو موجود ہے،کل آخری دن ہے پھر وہ ویڈیو کا ڈیٹا ختم ہو جائے گا پھر کہا جائے گا کہ پتہ نہیں یہ اس کیمرے کی ویڈیو ہے یا نہیں ؟ عدالت نے تفتیشی کو ویڈیو لینے کی ہدایت کر دی جج فرخ فرید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تفتیشی کا کام دونوں سائیڈ سے ثبوت حاصل کرنا ہے،جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے تک کیس ملتوی کرنا ممکن نہیں ،ملزمہ کے وکیل کی جانب سے ویڈیو یو ایس بی عدالت کے سامنے پیش کر دی گئی.

رضوانہ تشدد کیس، آپ کیا کہتے جو زخم بچی کو آئے ہیں وہ کیا اس کی والدہ نے پہنچائے ؟ جج کا ملزمہ کے وکیل سے استفسار

کمرہ عدالت میں بچی کی ویڈیو لگا دی گئی عدالت نے ملزمہ کے وکیل کو دلائل دینے کی ہدایت کر دی، ملزمہ کے وکیل ایف آئی آر کا متن پڑھ کر سنایا ،عدالت نے ملزمہ کے وکیل کی طرف سے فراہم کردہ ویڈیو دیکھی ،وکیل ملزمہ نے کہا کہ ویڈیو میں لڑکی اور اسکی ماں نظر آرہی ہے ، جج نے استفسار کیا کہ کیا لڑکی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی ؟ وکیل ملزمہ نے کہا کہ جی لڑکی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی ،یہ بہت بڑا بیان ہے کہ جج کی بیوی نے رضوانہ کو دھکا مارا حالانکہ ایسا کچھ نہیں ، عدالت نے کہا کہ ہم نے میڈیا کو نہیں بلکہ ایف آئی آر کو دیکھنا ہے ،جج نے ملزمہ کے وکیل سے استفسارکیا کہ آپ کیا کہتے جو زخم بچی کو آئے ہیں وہ کیا اس کی والدہ نے پہنچائے۔؟

ملزمہ کے وکیل کی جانب سے فراہم کردہ ویڈیو عدالت نے دیکھیں . وکیل ملزمہ نے کہا کہ مجھے بلیک میل کرکے پیسے بھی مانگے جتنے میں میں دے سکتا تھا دئیے ،وکیل صفائی نے کہا کہ تفتیشی افسر نے سرگودھا میں بس اسٹینڈ کی ویڈیو نہیں لی، ویڈیو میں دو کردار اور بھی ہیں جن کی ویڈیو مقامی ہوٹل سے ملی، عدالت سے پہلے سومیاعاصم کا میڈیا ٹرائل شروع کردیا گیارپورٹ کے مطابق بچی ہسپتال 3 بجے صبح پہنچتی ہیں، یہ والی رپورٹ کہاں ہے؟ طبی رپورٹ کے مطابق 23 جولائی 5 بجے انجری ہوئی،پولیس کو کہا گیا کہ بچی اپنا بیان دینے کے حال میں نہیں،سرگودھا تک بچی بلکل ٹھیک گئی، کوئی ٹریٹمنٹ کی ضرورت نہیں تھی، 3 بجے سرگودھا پہنچنے کے بعد طبی معائنے کی ضرورت کیسے اچانک پڑ گئی بچی کو،اگر گرفتاری کے بعد بھی ضمانت ملنی ہی ہے تو ملزمہ کو جیل نہیں بھیجنا چاہیے،قانون کے مطابق عورت کو ضمانت ضرور ملنی چاہیے، کیس میں حقائق مسخ کیے گئے،جے آئی ٹی کیوں بنی ہے؟ کیا مقصد ہے؟ ممبران کون ہیں؟ کیا جے آئی ٹی کے ممبران پولیس افسران ہیں؟ جب ممبران پولیس اہلکار نہیں تو جے آئی ٹی میں کون شامل ہے؟ جج فرخ فرید نے کہا کہ
ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ جے آئی ٹی کے سامنے دوپہر میں پیش ہوناہے، وکیل صفائی نے کہا کہ میں کس کس کے پاس جاؤں تا کہ اصل حقائق منظرعام پر آئیں،شفاف تفتیش کا مطلب ہی دونوں طرف سے حقائق کو منظرعام پر لانا ہوتا ہے،

رضوانہ تشدد کیس، ملزمہ سومیا عاصم نے ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کرلیا ملزمہ سومیا عاصم نے کہانی من گھڑت قرار دے دی،سومیا عاصم نے عدالت میں دائر درخواست میں کہا کہ رضوانہ اپنے والدین کی مرضی سے میرے گھر میں ملازمہ تھی ، ایف آئی آر میں بیان کی گئی کہانی درست نہیں ، رضوانہ پر کبھی بھی تشدد نہیں کیا، تفتیش میں اپنے موقف کو درست ثابت کروں گی،رضوانہ کی عمر سترہ سال سے زائد ہے، رضوانہ کیساتھ اپنے نو سے بارہ سال کے تین بچوں کی طرح ہمیشہ نرمی سے پیش آتی رہی ہوں ،مبینہ وقوع سے پہلے جب سے رضوانہ میرے پاس کام کررہی ہے کبھی کوئی شکایت نہیں تھی، حقائق کو توڑ مروڑ کر میرے خلاف استعمال کیا جارہا ہے،میں بھی منفی مہم کی متاثرہ ہوں جو میرے اچھی شہرت کے حامل شوہر سول جج کیخلاف چلائی جارہی ہے، اس ذہنی ٹراما کی وجہ سے مجھے شدید مشکلات کا سامنا ہے،تعلیم یافتہ اور باوقار خاتون ہوں بدنیتی کی بنیاد پر کیس میں پھنسایا جارہا ہے، پولیس کے سامنے شامل تفتیش ہونے کو تیار ہوں ،ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی جائے

طالبہ کے ساتھ جنسی تعلق،حمل ہونے پر پرنسپل نے اسقاط حمل کروا دیا

ویڈیو بنا کر ہراساں کرنے کے ملزم کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

ناکے پر کیوں نہیں رکے؟ پولیس اہلکار نے شہری پر گولیاں چلا دیں

بارہ سالہ بچی کی نازیبا ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار

واقعہ کا اسلام آباد پولیس نے مقدمہ درج کر لیا

 ابتدائی طور پر بچی کے زخم پرانے ہیں تاہم حتمی فیصلہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر ہوگا

پولیس نے بچی اور اسکے والد کا بیان ریکارڈ کر لیا

میری اہلیہ سخت مزاج ہے لیکن اس نے مارپیٹ نہیں کی ہے

وزیراعظم نے کہا ہے کہ بچی کوعلاج کی بہترین سہولیات کی فراہم کی جائیں

واضح رہے کہ تشدد کا شکار 14 سالہ گھریلو ملازمہ رضوانہ کا تعلق سرگودھا سے ہے تشدد کا واقعہ علاقہ تھانہ ہمک اسلام آباد میں پیش آیا ، بچی کو مضروب حالت میں اس کی والدہ اسلام آباد سے واپس سرگودھا لیکر آئی،

Leave a reply