سوال یہ ہے کہ بچوں کے بناؤ یا بگاڑ کا اصل ذمہ دار کون ہوتا ہے۔ والدین اساتذہ کرام گھر کا ماحول یا پھر باہر کا معاشرہ۔
آج کے نوجوان کا کردار انتہائی گھناؤنا اس لئے ہے نہ گھر والوں نے اس کے کردار پر تنقیدی نظر ڈالی اور نہ ہی سکول و کالج می میں اساتذہ دیکھتے ہیں۔ کہ ہمارے نوجوان کس ڈگر پر چل نکلے ہیں۔
ہمارے نوجوان کا جو آج کل کردار ہے اس پر اقبال نے بھی کیا خوب کہا
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
بے شک آپ اس بات کو نہ ماننے کے لئے تیار ہوں برحال آپ کو یہ بات ماننا ہو گی ۔جب سے والدین اور اساتذہ کرام نے بچوں کی تربیت سے مکمل بے اعتنائی اور بے پرواہی برتی ہے ۔ تب سے اس معاشرے کا نوجوان علمی و اخلاقی دونوں پہلوں میں دیوالئے پن کا شکار ہو چکا ہے ۔
اب میں یہ نہیں کہوں گا کہ سارا معاشرہ ہی ایسا ہے یا سارے والدین اور اساتذہ کرام ہی ایسے ہیں۔
نہیں ایسا ہرگز نہیں لیکن بہت سارے ہیں بھی۔ آپ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ آج کل کے والدین اپنے بچوں کے ہمراہ بیٹھ کر ٹی وی پر بے ہودہ فلمیں دیکھتے ہیں۔
اساتذہ خود اپنے شاگردوں کے ہمراہ سینما ہال میں موجود ہوتے ہیں ۔ اور اس چیز کو کونفیڈینس کا نام دیا جاتا ہے ۔
اس حقیقت پر کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے۔کہ بچہ فطری طور پر نقال ہوتا ہے ۔ وہ تو گھر میں اپنے والدین اور سکول و کالج میں اپنے اساتذہ کا خوب اچھی طرح مطالعہ کرتے ہیں۔ اور آپ نے یہ بھی ایک مشہور مثل سنی ہو گی کہ ‘خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ‘
جو عمل اور کردار والدین کا ہوگا بیٹا اور شاگرد بھی وہی کرے گا ۔ یہ سچ ہے ماں اگر نماز پڑھے گی تو بچہ اس کے ساتھ کھڑا ہوگا اس کی طرح ہی رکوع اور سجود کرے گا ۔ ماں کی طرح ہی دعا کے لئے اپنے ننھے منے ہاتھ اٹھا دے گا ۔
ہاں اگر ماں ایسا نہ کرتی ہو۔ اگر ماں فلمیں اور ڈرامہ پسند کرتی ہے تو بچہ بھی پھر وہی چیز پسند کرے گا ۔
اگر باپ آوارہ اور اوباش لوگوں میں بیٹھے گا تو بیٹا بھی ویسے ہی دوست چنے گا ۔ ایسا ہی طریقہ اساتذہ کا اتا ہے ان کا ماحول دیکھ کر بچہ سیکھتا ہے ۔ بہر حال کلاس کا کمرہ اور گھر کا ماحول پہلی سٹیج ہے جہاں سے بچے کے بناؤ اور بگاڑ کے سفر کا آغاز ہوتا ہے ۔ آج کا بچہ علامہ اقبال یا محمد علی جوہر تب بنے گا ۔ جب اس کی ماں اس کو
لاالہ الااللہ کی لوری سنائے گی ۔
یہاں پر مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آگیا
شکایت ہے یا رب مجھے خدا وندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
بہر حال اساتذہ اور والدین پرندے کے دو پر ہیں۔ جب تک پرندے کے دونوں پر اپنی رفتار اور پرواز جاری نہیں رکھیں گے۔ دونوں اخلاق و کردار کا نمونہ پیش نہیں کریں گے ۔ تب تک پرندہ بلند پرواز شاہین کی مانند نہیں ہو گا ۔ اور اپنی منزل مقصود پر نہیں پہنچے گا ۔
بہر حال میں اپنا مؤقف پھر دہراؤں گا ۔ کہ والدین اور اساتذہ کرام کو اپنا اپنا کام صحیح طور پر سرانجام دینا چاہیے۔ کیونکہ جب تک یہ دونوں بزرگ اپنا کام نہیں کریں گے ۔ تو معاشرے میں شاہین نہیں کرگس ہی پیدا ہوں ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بچوں کے بناؤ اور بگاڑ کا ذمہ دار تو باہر کا ماحول اور معاشرہ ہوتا ہے ۔ ہاں اس میں وہ بھی کافی حد تک شامل ہے ۔ اس پر الگ سے کسی دن لکھا جائے گا ۔ انشاءاللہ
@AhsanNankanvi