بچوں سے مزدوری کروانا تحریر : علی حیدر

ایک پسماندہ اور بے روزگاری کے شکار معاشرے میں کم سن بچے مزدوری کرتے ہوئے , ہوٹلوں پہ کام کرتے ہوئے یا اینٹیں ڈھوتے ہوئے عام دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کم سن بچوں کی بڑی تعداد تعلیم کو خیر باد کہہ کر یا تو محنت مزدوری کرنے پہ لگ جاتی ہے یا کوئی ہنر سیکھتے ہوئی دیکھائی دیتی ہے۔
اگرچہ ہمارے ملک میں بچوں سے مزدوری کروانا , ان سے جسمانی مشقت کا کام لینا جرم ہے اور مختلف ادوار میں اس کے لئیے قانون سازی بھی ہوتی رہی ہے لیکن یہ قانون رفتہ رفتہ بے اثر ہوتا گیا۔ چناچہ گلیوں میں بھیک مانگتے , انڈے , قہوہ اور برگر بیچتے , فیکٹریوں , ہوٹلوں اور اینٹوں کے بٹھوں میں کام کرتے معصوم بچے ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں جو کہ ہماری پسماندہ سوسائٹی کا ایک افسوسناک پہلو ہے۔

بچپن بچے کے جسمانی خدوخال کی نشوونما اور ذہنی و نفسیاتی ارتقاء کا بنیادی مرحلہ ہوتا ہے جس کے لئیے سکول بہترین جگہ ہے۔ سکول بچوں کی شعوری سطح کو بلند کرنے کے لئیے ایک ایسا سازگار ماحول فراہم کرتا ہے جہاں وہ اپنے بہترین ہم عمروں کے ساتھ رہ کر آنے والے ذندگی کے لئیے خود کو تیار کر پاتے ہیں اور ان کی شعوری سطح بھی بلند ہوتی ہے۔لیکن سکول میں موجود بچوں کے مقابلے میں بچوں کی ذیادہ تعداد کا سکول کی بجائے مزدوری کرنے کے لئیے سکول سے باہر موجود ہونا اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا ڈھانچہ جن بنیادوں پہ استوار کھڑا ہے ان میں ضرور کوئی خامی ہے۔
بظاہر اس کی بنیادی وجہ بے روزگاری اور آبادی میں اضافہ ہیں لیکن حقائق کا بغور تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے عوامل آپس میں جڑے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ان گنت مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ان مسائل میں مہنگائی , شعور کی کمی , پرانی روایات , غربت , بے روزگاری , منشیات اور صحت کی عدم سہولیات وہ مسائل ہیں جن میں ایک مسئلہ کی وجہ بن رہا ہے۔
آبادی میں اضافہ بہت سے ماحولیاتی اور معاشرتی مسائل کو پیدا کرتا ہے کیونکہ آبادی میں اضافے سے ضروریات ذندگی بڑھ جاتی ہیں جن کو پورا کرنا خاندان کے اکیلے کمانے والے شخص کے بس میں نہیں رہتا۔
ہمارے معاشرے کا افسوسناک اور منفی پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے کے اکثر افراد اپنی عورتوں کو ملازمت کی اجازت نہیں دیتے اگرچہ وہ اعلی تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہوں۔ چناچہ جب اکیلا مرد گھر کے اخراجات پورے نہیں کر پاتا تو وہ معصوم بچوں کی تعلیم چھڑوا کر ان کو کام پر لگا دیتا ہے۔
معاشرے میں بچوں کے مشقت اور مزدوری کرنے کے کلچر کو ختم کرنے کے لئیے پہلا اقدام عورت کے لئیے ملازمت کے مواقع فراہم کرتے ہوئے اس کے ملازمت کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ خاوند کے ساتھ مل کر حصول معاش میں اس کا ہاتھ بٹا سکے اور وہ دونوں مل کر اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کے ذیور سے آراستہ کر کے ایک باشعور اور تعلیم یافتہ نسل کی بنیاد رکھیں۔
بنیادی تعلیم حاصل کئیے بغیر ایک بچہ جب ایک خاندان کا سربراہ بنے گا تو وہ تب بھی مزدوری کر کے روزی کمائے گا ۔ یوں نہ صرف اس کی ساری ذندگی مزدوری میں گزر جائے گی بلکہ وہ خود بھی مستقبل میں اپنے بچوں کو تعلیم کے ذیور سے آراستہ کرنے کی بجائے ان کو مزدوری پہ لگا دے گا ۔ اس طرح ایک خاندان ایک ایسی نسل کو جنم دے گا جس کا کوئی بھی فرد پڑھا لکھا اور معاشی طور پہ خوشحال نہیں ہو گا۔
معاشرے میں پھیلتے ہوئے جرائم , منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ اور محرومی و احساس کمتری کے شکار افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی کسی حد تک اسی وجہ سے ہے کہ بچوں کو تعلیم کے ذیور سے آراستہ کرنے کی بجائے ان کو بچپن سے ہی جسمانی مشقت پہ لگا دیا جاتا ہے جہاں سے وہ متششدد بن کر جرائم کی راہ اپناتے ہیں یا منشیات کے عادی ہو کر ذندگی کی ذمے داریوں سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بچے کی جسمانی مشقت کے ساتھ گھر کی معشیت کو وقتی طور پہ ذرا سا کاندھا تو میسر آ جاتا ہے لیکن اس کے نتائج دیر پا ہوتے ہیں جو نسلوں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔

بچوں سے مزدوری کروانے کے کلچر کا بنیادی اور مؤثر حل یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لئیے اقدامات اٹھائے جائیں

بچوں کی جسمانی مشقت اور مزدوری کرنے کے خلاف قانون سازی عمل میں آنی چاہئیے ۔ اس مقصد کے لئیے وہ فیکٹری , ہوٹل اور ریسٹورنٹ مالکان جو بچوں کو ملازمت کرنے کے لئیے اپنے پاس جگہ دیتے ہیں ان کے خلاف کاروئی عمل میں لائی جائے۔
مرد کے ساتھ ساتھ نہ صرف عورت کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے بلکہ عورت کے ملازمت کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ مرد کے ساتھ شانہ بشانہ مل کر گھر کی معشیت کا بوجھ ہلکا کر سکے۔
معاشرے کے صاحب حیثیت افراد کو چاہئیے کہ وہ غریب خاندانوں کی کفالت کا ذمہ لیں اور ان کے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کریں کیونکہ اکثر لوگ اپنے بچوں کو اس لئیے سکول نہیں بھیجتے کیونکہ وہ بچوں کے تعلیمی اخراجات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔

@alihaiderrr5

Comments are closed.