"بچوں کی پرورش کیسے کرنی چاہئیے” .تحریر: فرزانہ شریف

0
89

کہتے ہیں بچے کی تربیت ماں کی گود سے ہی شروع ہوجاتی ہے کسی بچے کی تربیت دیکھنی ہوتو اس کی ماں کو دیکھ لیں بچہ ماں کا پرتو ہوتا ہے ۔بچہ ایسی موم کی گڑیا ہوتا ہے شروع دن سے آپ اس کو جس طرف موڑنا چاہئیں گےمڑ جائے گا اللہ جب یہ نعمت۔رحمت دیتا ہے ماں کا فرض ہوتا ہے وہ بچے کا دنیا میں آنے کا حق ادا کردے اچھی تربیت کرکے۔۔۔ماں کا اس لیے کہہ رہی ہوں بچے کے ساتھ ذیادہ وقت ماں کا گزرتا ہے باپ تو روزی روٹی کی تلاش میں باہر کی چھان ۔چھان رہا ہوتا ہے اس لیے بچوں کی تربیت کی ذیادہ ذمہ داری ماں پر آجاتی ہے اپنے بچوں کے ذہین کی صاف سلیٹ پر آپ جو کچھ لکھیں گے جو کچھ نقش کریں گے وہ ان مٹ چھاپ وقت کے ساتھ مضبوط ہوتی جائے گی جو کچھ بچوں
کو ہم آج دیں گے کل کو وہی ہم پائیں گے اپنے بچوں کی تربیت میں سب سے پہلے خوش اخلاقی جیسی خوبی شامل کریں اچھا بولنا سکھائیں بڑوں کا ادب چھوٹوں سے پیار کرنا سکھائیں ۔
انھیں بچپن سے ہی تعزیت۔تیماداری۔برداشت انکساری ۔تواضع اور صبر کرنا سکھائیں ان کو بچپن سے ہی نماز کا عادی بنائیں ۔ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وآلہ علیہ وسلم کی محبت ڈالیں ان کے دلوں میں صلہ رحمی ڈالیں بچوں کے دلوں میں ان چیزوں کی محبت ڈالنے کا سب سے بہترین وقت ان کا بچپن ہی ہے۔ جب ان کے دلوں میں اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کی محبت ہو گئی تو وہ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی لازمی کوشش بھی کریں گے ان کے دل میں لگن پیدا ہوگی ۔حرام حلال کھانے میں فرق بتائیں ۔ہمارے مذہب میں کن چیزوں کی سختی سے ممانعت فرمائی گی ہے ان چیزوں کے لیے ان کے دلوں میں ناپسندیدگی پیدا کریں ۔غلط صیحح کی پہچان کروائیں یہی ایک اچھے انسان کی خوبی ہے ورنہ تو کھلا پلا کرجانور بھی بچے پال لیتے ہیں اور آپ کے بچے آج کا سیکھا کل آپ پر آزمائیں گے اس لیے ہر وہ چیز اپنے بچے کے دماغ میں ڈالنے کی کوشش کریں جو کل اسے ایک صحت مند شہری بننے میں مدد کرے ایک صحت مند معاشرہ اکائی سے ہی بنتا ہے ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے اپنا رول ادا کرنا والدین کا فرض ہے۔ایک اور ضروری چیز ‏کوشش کریں اپنے بچوں کےسامنے
اپنے گھر والوں بھائیوں۔بہنوں کی باتیں ڈسکس مت کریں
بھائیوں،بہنوں میں جتنی جلدی غلط فہمیاں پیداہوتی ہیں وہ اتنی جلدی ختم بھی ہوجاتی یقین جانئےآپ کا جذبات میں آ کرکہا جانےوالا ایک بھی غلط لفظ آپکے بچوں کو عرصہ تک یادرہتااورتعلق میں غلط فہمی کاباعث بنتا.پھر آپ کے لاکھ سر پٹخنے سمجھانے کے باوجود آپ کے بچے کے دل سے وہ باتیں نہیں نکلتی جو آپ نے جذبات میں آکر ڈال دی تھیں آس لیے یہ والدین کے لیے امتحان ہوتا ہے تکلیف دہ باتیں اپنے تک محدود رکھ کر خود تکلیف برداشت کرکے بچوں کے دلوں کو زہر آلود ہونے سے بچا لیا جائے ۔

آپ آج اپنے رشتہ داروں کے خلاف ان کے دلوں میں زہر ڈالیں گے تو یہ زہر کل سب سے پہلے آپ پر ازمائیں گے ۔ اپنے بچوں کو اچھے استاد سے قران مجید کی تعلیم دلوائیں جب آپکا بچہ قرآن مجید ختم کرلیتا ہےتو والدین انہیں، سورہ یوسف، سورہ نور ۔سورہ احزاب کی تفسیر اچھی طرح سے سمجھا دیں تاکہ انہیں معاشرتی قوائد کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کی حفاظت کرنا، سمجھ میں آجائے گااپنے بچوں کی دن بھر کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں ۔جھوٹ بولنےچوری جیسی برائیوں کی ناپسندگی اور اللہ کی ناراضگی اور اس کے نقصانات شروع سے ہی بچے کے دل ودماغ میں ڈال دیں ۔یورپ میں رہنے والے والدین کو چاہئیے کھانے پینے کی چیزیں خود گھر لاکر رکھیں 18 سال سے پہلے بچے کو کبھی پیسے نہ دیں اسے بولیں جو کچھ کھانا ہے یا لینا ہے ہم لے کر دیں گے ۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا بچہ باہر کے ماحول کی برائیوں سے بچ جائے گا کسی سے کچھ بھی نہیں لیکر کھائے گا ۔۔ جب جب موقع ملے اپنے آس پاس یا پھر اپنے پڑوسی رشتہ داروں کے بچوں کو بھی اچھی تربیت دینے کی کوشش کریں اپنے بچوں جیسی جیسا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے سلجھے ہوئے ہوں ایک اچھے شہری بنیں اسی طرح باقی بچوں پر بھی توجہ دینی چاہئے ۔ ہم نے روز قیامت صرف اپنے بچے کے بارے میں حساب نہیں دینا بلکہ ارد گرد کے بچوں کی تربیت کے بارے میں بھی پوچھا جائے گااس لیے دوسروں کے بچوں کو بھی اپنے بچے سمجھ کر ان کو صحیح غلط کی تمیز سکھائیں جو کچھ اپ اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں وہ ان بچوں کو بھی سکھائیں ۔بچوں کی بہترین پروش کرنے کے ساتھ اپنے آس پاس کا ماحول بھی خوبصورت بنائیں کہ سیانے کہتے ہیں جہاں رہو ایسے رہو کہ آپ پاس ہوں تو ہنسیں ۔آپ چلے جائیں تو روئیں کسی کو ذلیل کرنے کی کوشش بھی نہ کریں، جو بات آپ کو تکلیف دیتی ہےآپکو کو بےچین کرتی ہے وہ بات دوسروں سے بھی نہ کریں جس سے وہ انسان درد محسوس کرے اگر کسی کو اپنی زات سے خوشی نہیں دے سکتے تو درد بھی نہ دیں انسان اللہ کی سب سے پیاری مخلوق ہے۔ اگر کوئی انسان آپ کے مطلوبہ معیار کا نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کم معیاری یا غیر معیاری ہے بلکہ وہ صرف آپ کے معیار کا نہیں ہے، یہ بھی تو ممکن ہے کہ آپ بھی کسی کے مطلوبہ معیار سے نچلے درجے پر ہوں، اور وہ اپکی شکل بھی دیکھنا پسند نہ کرتا ہو ۔اللہ کی مخلوق کو اپنی پسند کے معیار پر نہ پرکھیں اگر آپ کے پاس بےشمار دولت ہے تو وہ اپ کی اپنی ذات کے لیے ہے دوسروں کو اس کا رتی بھر فائدہ نہیں ان کو فائدہ اگر کچھ ہے تو اپ کا ان کے ساتھ اچھا رویہ ہے اگر آپ ان کو دھتکاریں گے تووہ کونسا آپکو پھولوں کے ہار پہنائیں گے پیار عزت دینا بھی اعلی ظرف لوگوں کے پاس ہوتا ہے کم ظرف لوگوں کو اللہ نے یہ خوبی دی ہی نہیں ہوتی۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اسوہ حسنہ پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی انسان اگر اللہ تعالٰی کے مقرر کردہ معیار کا بھی نہیں ہوتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے اسے بطور انسان اسے کبھی کم تر نہیں جانا اس کی سب سے بڑی مثال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورہ طائف سے ملتی ہے کہ جہاں آپ پر پتھر برسا کر آپ کو زخمی کیا گیا زبانی اور جسمانی ایذا دیا گیا وہاں بھی آپ نے بد کلامی، بد گمانی اور بد دعا کا سہارا نہیں لیا بلکہ اچھے گمان کے ساتھ دعا فرمائی، اس لئے اپنی پسند اپنی سوچ اور اپنی مرضی اپنی خواہش کو ٹھیک جان کر اللہ کے بندوں کے لئے فیصلے نہ کیجئے،بےشک آپ دن رات مصلحے پر بیٹھے ہوں پانچ وقت نماز ادا کرتے ہوں بے شک، آپ ایک سال میں چھ مہینے روزے رکھتے ہوں بے شک، آپ ہر ہفتے دو قرآن مجید مکمل کرتے ہوں بے شک،آپ جتنا کوئی نیک بندہ دنیا میں نہ ہو ، لیکن اللہ کے بندوں کو سخت سست سناتے ہوں، انہیں اپنے لیول کا نہیں مانتے ان سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتے ہوں اپنی باتوں سے اپنے رویے سے ان کے دل چھلنی کرتے ہوں تو صرف ایک دفعہ وہ حدیث مبارک ضرور یاد کریں جس میں ایک نمازی، روزہ دار، زکوٰۃ ادا کرنے والے کے منہ پر اس کے اعمالوں کی گٹھڑی واپس مار دینے کا ذکر ہے،اور یہ واقعہ ایسا ڈرا دینے والا ہے کہ اگر انسان کو خود سے واقعی محبت ہے تو وہ ایسے کاموں سے بچ کر نکلنے کی کوشس کرے گا جس سے اللہ کی پکڑ کا ڈر ہوتا ہو اللہ تعالی ایسا وقت کسی دشمن پر بھی نہ لائے کہ اس کے اچھے کام اس کی عبادت ۔ایک ذرا سے تکبر کی وجہ سے اس کے منہ پر ماردی جائے اللہ سبحان تعالی ہمیں سیدھے راستے پر چلائے گمراہی اور تکبر سے محفوظ رکھے آمین ثمہ آمین

Leave a reply