بچپن کی یادیں تحریر : منیب انجم علوی

0
49

عید کی چھٹیوں میں مجھے کچھ فرصت کے لمحات میسر آئے تو اُن لمحات میں مجھے میری سوچ میرے بچپن میں لے گئی جب امی جان ہمیں صبح فجر کی اذان کے ساتھ اٹھاتی نماز پڑھنے کے لئے اور وہ خود اُس وقت تک تحجد کے نوافل ادا کر چکی ہوتی ہم اُٹھ کر مسجد کی طرف چل پڑتے اور وہ گھر میں میری بہنوں کے ساتھ نماز کا اہتمام کرتی۔
ہم جب نماز ادا کر لیتے تو اُس کے بعد مسجد محلے کے بچوں سے کھچاکھچ بھر جاتی جن کو قاری صاحب بغیر کسی معاوضے کے قرآن پڑھاتے تھے ہم بھی انہیں بچوں کے ساتھ مسجد میں قرآن پڑھتے پھر واپس گھر کی راہ لیتے ہمارے گھر پہنچنے سے پہلے والدہ نے آٹا گھوند کر چولہا جلایا ہوتا۔ والد صاحب صبح فجر کے فورا بعد کام کی طرف روانہ ہو جاتے اور ہم جب مسجد سے گھر پہنچتے وہ جا چکے ہوتے لیکن جانے سے پہلے وہ والدہ کو ہمارے سکول کا جیب خرچ دے کر جاتے تھے پھر ہم بھی سکول کے لئے تیار ہوتے اور سب بہن بھائی اکھٹے بیٹھ کر ناشتہ کرتے والدہ چولہے سے روٹیاں اتارتی جاتی اور ہم سب کھاتے جاتے اُس کھانے میں جو برکت تھی وہ شائد اب نہیں رہی کیونکہ اب نا تو ہمارے پاس وقت ہے اکھٹے بیٹھنے کا اور نہ ہی وہ خلوص باقی ہے اب جب اپنے بچپن کے وہ دن یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کاش ہم بڑے ہی نہ ہوتے کاش وہ دن دوبارہ واپس آجائیں جب رشتوں میں محبت تھی وسائل کم تھے اور برکت ذیادہ( لیکن اب وسائل ذیادہ ہیں اور برکت کم) لیکن افسوس اب نہ تو وہ دن واپس آسکتے ہیں اور نہ ہم دوبارہ بچے بن سکتے ہیں لیکن ایک کام ہے جو ہم اب بھی کر سکتے ہیں اور وہ ہے رشتوں کا احساس ہم آج اپنے قریبی رشتوں کے لئے وقت نکالیں تو بہت سے مسائل خودبخود حل ہو سکتے ہیں
اگر آپکو تحریر اچھی لگے تو اپنی قیمتی رائے سے اگاہ ضرور کیجیے

Leave a reply