محرم الحرام یوم عاشور کے دن لوگوں کی بہت بڑی تعداد قبرستان میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔۔بچپن میں جب والد سے موت اور قبرستان کا پوچھتے تو وہ بتاتے مرنے کے بعد انسان قبر میں جاتا ہےاور اگر ہم گناہ کریں گے جھوٹ بولیں گے تو جب ہم قبر میں لیٹے گے تو اندر کیڑے مکوڑے اور بچھو ہوں گے اور اس ڈر سے بہت بار جھوٹ بولتے بولتے رک جاتے تھے۔اب سوچا جائے تو وہ ڈر خدا کا، قبر کا اور گناہوں کے بعد ملنے والی سزا کا تھا۔۔اور اسی محرم الحرام میں فیملی کے ساتھ قبرستان گئی چار سال کی بچی پہلے اغوا اور پھر جنسی تشدد کا شکار بنی۔۔اور سب سے حیرت کی بات کے ملزمان کی عمر تیرہ اور چودہ سال ہے یہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔۔۔اور ایسی بہت ساری خبریں نظروں سے گزرتی ہیں جس میں بچے جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں۔۔آج کوئی دن خالی نہیں جس میں یہ خبر سننے کو نہیں ملے کہ فلاں جگہ بچی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا کبھی قتل کر دیا گیا یا پھر کبھی آدھ موٸی حالت میں زندہ لاش ملی۔۔اور جب کوئی اس طرح کا واقعہ ہو تو کوئی طبقہ عورتوں کو گناہگار سمجھتا ہے اور کوئی مردوں کو حیوان کہتا ہے۔۔۔اسی مرد و عورت کی جنگ میں بچے روز اس درندگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ہم سب کو ڈر ہے اپنے بچوں کے لئے ۔۔لیکن کوئی بھی اس سب سے بچنے کے طریقے پر غور نہیں کر رہا۔۔یہ مرد و عورت کی جنگ میں سب سے زیادہ پِسے جا رہے ہیں تو صرف بچے۔۔۔جب ایک گھر میں سارا دن خبریں سننے کے بعد مرد عورت کو قصور وار ٹھہراۓ گا اور عورت مرد کو حیوان سے تشبیہ دے گی تو بچوں پر توجہ کون دے گا؟۔جب ایک ناپختہ ذہن بچہ باپ کے ساتھ بیٹھ کر سنے گا کہ عورت قصور وار ہے تو اس کے ذہن میں عورت کے لیے ویسا ہی عکس بنے گا۔۔۔اور اسے گناہ، گناہ نہیں لگے گا بلکہ عورت اس کی حقدار لگے گی۔۔۔اور دوسری طرف بیٹی سارا دن ماں کے ساتھ بیٹھ کر جب مردوں کے بارے میں برا سنے گی تو اسے ایک شریف النفس شخص بھی شیطان لگے گا۔۔جس کے نتیجے میں مادرپدر آزادی کے نعرے سننے کو ملتے ہیں۔۔۔اسی جنگ میں بچوں کی تربیت کون کرے گا؟انہیں اچھے اور برے ،نیکی اور گناہ ،عزت اور بےعزتی میں فرق کون سمجھائے گا؟ایک مرد ایک عورت کی گود میں سے بیٹے کی صورت میں نکلتا ہے۔۔اور ایک عورت ایک بیٹی کی صورت میں ایک مرد کے زیر سایہ پلتی ہے۔۔اگر والدین اس پر توجہ دیں ماں بیٹے کو سکھائے کہ صرف گھر کی عورت ہی عورت نہیں ہوتی بلکہ عورت ہر جگہ قابل عزت ہے۔۔اور مرد بیٹی کو بتائے کہ مرد ایک سائبان ہے باپ ہے بھائی ہے اور دنیا کے سب مرد ہی اتنی عزت اور وقار والے ہیں جتنے اس کے باپ بھائی۔۔تو پھر یہ مسئلہ ہی نہ ہو۔۔۔ ماں کو بیٹی سے اتنا بے تکلف ہونا چاہیے کہ وہ سمجھائے کہ good touchاور bad touch میں کیا فرق ہے..بیٹی کو سمجھائے کہ محرم اور نامحرم کیا ہوتا ہے کون سے رشتے کی کیا حدود ہوتی ہیں۔۔چھوٹی عمر میں ہی سمجھائے کے باپ اور بھائی کے علاوہ کوئی خیر خواہ اور ہمدرد نہیں ہوتا۔۔۔اور بیٹے کو بتایا جائے کہ بہن اپنی ہو یا کسی کی بہن، بہن ہوتی ہے۔بچوں پر نظر رکھیں دیکھیں وہ کن کاموں میں ملوث ہیں ان کا حلقہ احباب کیا ہے؟جب ہم چھوٹے چھوٹے بچوں کو موبائل اور انٹرنیٹ کی لت لگا دیں گے اور ساتھ بٹھا کر ایسے ڈرامے دکھائیں گے جہاں رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے جہاں محرم اور نامحرم کی تمیز ہی نہیں۔۔۔تو ان کے ناپختہ ذہن اس چیز کو کیسے سمجھ رہے ہیں اس پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔۔وہ تو تب ہونا جب ہم مرد و عورت کی لڑائی سے نکلیں۔۔۔انہیں سکول میں اخلاقیات اور رشتوں کے تقدس پر لیکچرز دیے جاٸیں۔۔۔انہیں سیلف ڈیفنس کی تربیت دی جائے۔۔۔ورنہ حالات آپ کے سامنے ہے اور حالات کا رونا روتے ہوئے ہم لوگ ہیں۔۔اگر ہم نے تربیت پر توجہ نہ دی تو جانے کتنی دہائیوں تک ایسے ہی ایک دوسرے کو کوستے رہیں گے اور بچے جنسی درندگی کا شکار ہوتے رہیں گے.اور حکومت وقت اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ جب ایسے مقدمات آئیں تو قانون کی پاسداری کرتے ہوئے ان انسانیت سوز عناصر کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔۔۔تاکہ وہ سب کے لئے نشان عبرت بنیں۔جب مقدمات درج ہونے کے باوجود ان درندوں کو عبرت کا نشان نہیں بنایا جاتا تو ایسے لوگوں کے دلوں سے خوف خدا پہلے ہی ختم ہوتا ہے تو اس طرح اداروں کا ڈر بھی ختم ہو جاتا ہے اور یہ ڈر ختم ہونا مزید برائی پر اکساتا ہے۔اگر فوراً قانون کی پاسداری ہو اور فل فور انصاف کی فراہمی ہو تو ہم پاکستان کوحقیقی معنوں میں ریاست مدینہ بنا سکیں گے..

Shares: