ہماری سوچ ہمارے اردگرد کے لوگوں پر اور معاشرے پر اثرات مرتب کرتی ہے۔ ہمارے اعمال ہماری سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ سوچ دو طرح کی ہوتی ہے ایک مثبت سوچ اور ایک منفی سوچ۔ منفی سوچ ہمارا کلچر بن چکی ہے۔ ایک منفی سوچ معاشرے پر منفی اثرات چھوڑتی ہے جب کہ مثبت سوچ صحت مند اور مہذب معاشرے کی ضمانت ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجاۓ ایک دوسرے کی حوصلہ افزاٸی کریں تا کہ معاشرے کے تمام افراد میں خود اعتمادی کی فضاء قاٸم ہو۔
ہمارے ہاں سکول ،کالجز اور یونیورسیٹیز میں بچوں کو کتابیں تو رٹاٸی جاتی ہیں مگر انہیں زندگی کے اصول اور انکا معاشرے کی ترقی میں کردار سے بلکل بھی آگاہ نہیں کیا جاتا۔ بچوں کو تعلیمی اداروں میں یہ تو بتایا جاتا کہ اگر پڑھو گے نہیں تو پچھلی کلاس میں واپس بھیج دیں گے لیکن اس بچے کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ آپ کو علم حاصل کرنا ہے کیونکہ علم آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے تا کہ آپ اس قوم کی ترقی میں اپنا کردار اداکر سکو۔ ہمارے ہاں تربیت کا نظام بہت ناقص ہے۔ جیسا کہ ہم پاکستان کی سڑکوں پر کوڑا پھنکنا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ جو چاہے کرو جہاں چاہے کچرا پھینکو خاکروب کا کام ہے کہ وہ صفاٸی کرے کیونکہ انہیں تنخواہ دی جاتی ہے اور اگر اس فضول قسم کی سوچ کو دوسروں تک پھیلانے کی بجاۓ مثبت پیغام دیا جاۓ کہ پاکستان ہمارا گھر ہے اور ہم سب کو اسکی صاف صفاٸی کا خیال رکھنا ہے کوڑا کرکٹ کوڑے دان میں ڈالنا ہے نہ کہ سڑکوں پہ پھینک کر اپنی جہالت کا ثبوت دینا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ پڑھے لکھے لوگ کوڑا کرکٹ پھیلا رہے ہوتے اور ان پڑھ لوگ صاف کر رہے ہوتے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم ڈگری یافتہ تو ہیں مگر تعلیم یافتہ نہیں ۔ہمارا معاشرہ اس طرح کے سینکڑوں واقعات سے بھرا پڑا ہے مثال کے طورپر ایک بچہ جو کہ اپنی والدہ کا ہاتھ پکڑے سکول سے نکلتا ہے اور اس کی والدہ اسے ایک خاکروب کی طرف اشارہ کرتے ہوے بتاتی ہے کےبیٹا دیکھو تم تعلیم حاصل کرو ورنہ اسکی طرح تم بھی خاکروب بن جاٶ گے اور بچہ اس طرح یہ تاثر لیتا ہے کہ یہ بہت ہی حقیر اور کم تر ہے جبکہ یہ لوگ بھی اس معاشرے میں وہی مقام رکھتے ہیں جو کہ ہمارا ہے بلکہ یہ تو زیادہ قابل احترام ہیں جو کہ ہمارا پھیلایا ہوا کوڑا کرکٹ صاف کرتے ہیں اور اس طرح وہ اس سے ناروا سلوک کرے گا جو کہ ایک مہذب معاشرے کے فرد کو زیب نہیں دیتا لیکن اگر وہی ماں بچے سے یہ کہے کہ بیٹا تم دل لگا کر پڑھو تا کہ تم معاشرے کے ان افراد کی بہتری کے لیے کام کر سکو اس طرح اس بچے کے اندر معاشرے کے ان افراد کے لیے محبت اور ہمدردی کا جزبہ پیدا ہو گا اور دوسرے کا
احساس جو کہ ماحول کو خشگوار بناتا ہے۔ کوٸی بھی معاشرہ وہاں کے رہنے والے لوگوں سے مل کر بنتا ہے چاہے وہ کوٸی خاکروب ہو یا کلرک ہو یا کسی ادارے میں آفیسر ہو ہمیں ہر ایک کو عزت دینا ہو گی کیوں ہر فرد ہی ملت کے مقدر کا ستارہ ہے چاہے وہ کوٸی ریڑھی بان ہی کیوں نہ ہو۔ مگر ہمارے ہاں منفی سوچ اس قدر پروان چڑھ چکی ہے کہ ہم صحیح باتوں کا بھی غلط مطلب نکالنے لگتے اور دوسروں کو عزت دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اور پھر ایک دوسرے سے ناروا سلوک کرنا اور اخلاق و تہذیب کی حدوں کو پار کر دینا ہمارے معاشرے میں بے سکونی کی فضاء پیدا کر رہا ہے۔ہمیں اس منفی سوچ سے باہر نکلنا ہو گا کیونکہ منفی سوچ ایک خطرناک زہر ہے جو معاشرے کے افراد کی تباہی کا سبب بنتی ہے ۔ جب ہماری سوچ منفی ہو گی تو ہمارا عمل بھی منفی ہو گا جس سے ہمارے ارد گرد کے لوگ متاثر ہونگے۔ ہمیں اپنے ذہنوں کو بدلنا ہو گا ایک دوسرے کو حقیر پن کی نگاہ سے دیکھنے کی بجاۓ اپنے اندر مثبت خیالات کو جگہ دینی ہو گی۔ بچے اس قوم کا روشن مستقبل ہیں اس لیے ایسے الفاظ کا چناٶ کریں جو انہیں معاشرے کے لیے اور اس کے افراد کے لیے سود مند بنا سکیں۔ مثبت سوچ کسی بھی کتاب میں نہیں پڑھاٸی جاتی بلکہ یہ تو ہمارے رویوں اور اخلاقیات سے پیدا ہوتی اور ان الفاظ سے ظاہر ہوتی جن کا ہم انتخاب کرتے۔ ہمارے ہاں تو والدین بچوں کو یہ سکھاتے کہ پڑھو گے نہیں تو فیل ہو جاٶگے لوگ مذاق بناٸیں گے اچھی جاب نہیں ملے گی وغیرہ وغیرہ اور اس جیسی اور بہت سی دوسری دھمکیاں اوراس طرح بچہ پڑھائی کا مثبت تاثرلینے کی بجاۓ اسے کوٸی بہت بڑا پہاڑ سمجھنے لگتا اور پھر آہستہ آہستہ پڑھائی کے متعلق اس کی سوچ منفی رو اختیارکر جاتی تو ان سب الفاظ کی بجاۓ اگر مثبت الفاظ کا چناٶ کیا جاۓ جیسے کہ بیٹا آپ اس قوم کا مستقبل ہو اگر آپ تعلیم حاصل کرتے ہو تو آنے والے دور میں آپ ملک کی فلاح و بہبود میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کر سکو گے اور معاشرے کےایک اچھے فرد ثابت ہو گے ۔ اس لیے مہربانی فرما کر اس قوم کےمستقبل کو اپنی منفی سوچ کی نظرنہ کریں اچھا سوچیں اور اچھا عمل کریں اور معاشرے کے تمام فرد کو عزت کی نگاہ سےدیکھیں کیونکہ کے ہر فرد اس معاشرے کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہا ہےچاہے ۔ منفی سوچ پر قابو رکھنا اور مثبت سوچ کو اپنانا ہمارے اپنے اختیار میں مگر افسوس کے ہم اس کے لیے کوشش نہیں کرتے ۔اگر ہمیں ایک ترقی یافتہ اورمہذب معاشرہ تشکیل دینا ہے تو ہمیں حقیقی معنوں میں اس کے لیے کوشش کرنا ہو گی اپنی منفی سوچوں کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ اگرسوچ مثبت ہو گی تو ہمارا رویہ بھی مثبت ہو گا اور مثبت رویہ معاشرے پر اور اس کے افرادپر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے😌
@b786_s