بلوچ طلبا کو اس عدالت سے مایوس واپس نہیں جانے دیں گے. عدالت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ بلوچ طلبا کو اس عدالت سے مایوس واپس نہیں جانے دیں گے

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت سے دو ہفتوں میں بلوچ طلبا کو ہراساں کرنے سے روکنے کیلئے کئے گئے اقدامات کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں آج بروز بدھ 7 ستمبر کو بلوچ طلبا ہراسانی کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر وزارت انسانی حقوق کی نمائندہ ایمان مزاری بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آج اس سے بھی زیادہ کوئی اور اہم معاملہ ہے؟ ایک صوبے کے طلبا شکایت لائے ہیں کہ ہراساں کیا جا رہا ہے، طلبا کہتے ہیں اپنے صوبے جائیں تو غائب ہو جاتے ہیں، جس پر ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ حکومت نے 30سے زائد بلوچ طلبا کے معاملے پر خط کا جواب نہیں دیا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بلوچ طلبا کے معاملے پر کمیشن سربراہ چیئرمین سینیٹ سے بات کروں گا۔ بلوچ طلبا ہراسانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت ان بچوں کے پاس گئی ہے، 17 سالہ فیروز بلوچ بھی لاپتا ہے، یہ سب کون کررہا ہے۔ یہ ٹیسٹ کیس تھا سب جماعتوں کے لوگوں پر مشتمل کمیشن بنایا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کسی سیاسی لیڈر نے چیئرمین سینیٹ کو کمیشن اجلاس بلانے کا کہا؟ کیا کسی سیاسی لیڈر نے اس مسئلے پر جلسے میں بات کی؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچ طلبا کو اس عدالت سے مایوس واپس نہیں جانے دیں گے۔ طلبا یہ احساس لیکر جائیں گے کہ وہ ملک کے اہم ترین شہری ہیں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو بلوچ طلبا پر قائم کمیشن کے ممبران سے رابطہ کرنے کی ہدایت کردی۔ اس دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بلوچ طلبا کا معاملہ تاحال حل نہ ہونے کا ذمہ دار سابق حکومت کو ٹھہرایا۔ اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ آپ نے دیکھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نہ پارلیمنٹ میں آئے نہ انہوں نے پارلیمنٹ کو اہمیت دی۔ اگر وہ کوشش کرتے تو یہ معاملہ حل ہوسکتا تھا۔ اب عدالت نے یہ بوجھ ہم پر ڈالا ہے تو ہم اس ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سیاسی جماعتوں نے بلوچ طلبا کو ترجیح بنایا ہوتا تو وہ آج یہاں نہ آتے، اگر بلوچ طلبہ کسی کی ترجیح ہوتے تو سیاسی جلسوں کے دوران اُن کے مسائل پر بات کی جاتی۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ کمیشن کے ذریعے طلبہ کو یقین دلائیں کہ وہ اہم ہیں، بلوچ طلبا کو اس عدالت سے مایوس واپس نہیں جانے دیں گے۔ اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل کو رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کیلئے دو ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس دوران کسی بلوچ طالب علم کو شکایت ہو تو اٹارنی جنرل سے رابطہ کرے۔

Comments are closed.